تحریر: مظہرجلالی۔۔
پییکا ایکٹ (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ)، انٹرنیٹ اور نئی ٹیکنالوجیز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے تناظر میں بہت سی وجوہات کی بنا پر ضروری سمجھا گیا لیکن اس ترمیم شدہ بل میں بھی بہت سی ترامیم متنازع بتائی جاتی ہیں۔
پییکا آرڈیننس (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) کے حوالے سے حال ہی میں قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔
مثبت پہلو:
– انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ہی سائبرکرائمز کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ ہینکنگ، سائبر ہراسانی، اور ڈیٹا چوری جیسے جرائم نے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مضبوط قانونی فریم ورک کی ضرورت محسوس ہوئی۔
– ڈیٹا کی حفاظت اور صارفین کی رازداری کے حقوق کو یقینی بنانا خطرناک سائبر سرگرمیوں سے عوام کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایکٹ کا مقصد افراد اور اداروں کی حساس معلومات کا تحفظ کرنا ہے۔
– سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتی فیک نیوز اور غلط معلومات سے عوامی رائے میں کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے فیک نیوز کے خلاف قانونی کاروائی کی بنیاد فراہم کی گئی ہے تاکہ عوام کو حقائق پر مبنی معلومات تک رسائی مل سکے۔
– عالمی سطح پر سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے مختلف ممالک نے قانون سازی کی ہے۔ اس ایکٹ کی تشکیل اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان بھی جدید دور کی ضروریات اور عالمی معیارات کے مطابق چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
– ٹیکنالوجی کا تیز رفتار ترقی کا سفر نئی چالوں اور ہتھکنڈوں کو جنم دیتا ہے جس سے عوام کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد ان نئے حالات کے مطابق قوانین وضع کرنا ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر کاروائی کر سکیں۔
– اس ایکٹ کے ذریعے خاص طور پر انفرادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ سائبر ہراسانی اور امتیاز کے خلاف قانونی اقدامات کی دستیابی، جو کہ قانونی نظام کو مزید ٹھوس بناتا ہے۔
منفی پہلو:
– بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایکٹ آزادیء اظہارِ رائے میں رکاوٹ بن سکتا ہے، خاص طور پر اگر حکومت اس کا ناجائز استعمال کرے۔
– اس آرڈیننس کے تحت کچھ صارفین میں خوف وہراس کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے سے کترائیں گے۔
– بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون حکومت کو زیادہ طاقتور بنا سکتا ہے، جس سے عوامی نگرانی اور کنٹرول میں اضافہ ہوگا۔
حالیہ پاس کردہ متنازع پیکا ایکٹ کے ملک پر اثرات:
اگر یہ ایکٹ صحیح طور پر نافذ کیا جاتا ہے تو، یہ ملک میں سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنا سکتا ہے، جس سے ملک کی بین الاقوامی تصویر کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ پھر کہہ رہا ہوں، اگر صحیح طور پر نافذ کیا جاتا ہے تو۔
عوام کی جانب سے اس قانون پر ردعمل مختلف ہو سکتا ہے، جو کہ عوامی احتجاج یا حمایت دونوں صورتوں میں ظاہر ہو سکتا ہے۔
اگر سرمایہ کار یہ محسوس کریں کہ ملک میں سائبر سیکیورٹی کو قانون کے تحت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے تو وہ سرمایہ کاری کیلئے مزید مائل ہوں گے۔
اس قانون کے نفاذ کے نتیجے میں عوام میں سائبر سیکیورٹی اور آن لائن تحفظ کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے صحافتی تنظیموں کے انفرادی طور پر اعتراضات کے ساتھ ساتھ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھی اسے مسترد کر دیا اور اس متنازع بل پر سخت تنقید کی۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ پیکا آرڈیننس (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) جو کہ اب ایکٹ بن چکا ہے اس پر صحافیوں کے اعتراضات کیا ہیں اور کیوں ہیں۔
متنازع “پییکا ایکٹ” کے حوالے سے صحافی برادری کی تنقید کی کئی اہم وجوہات ہیں، اور اس کے خلاف ان کی آوازیں اٹھنے کا خاص سبب یہ باتیں ہیں کہ یہ ایکٹ ان کے حقوق، آزادیء اظہار اور میڈیا کی فعالیت پر ممکنہ منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
– ایکٹ کے بعض مواد میں یہ خدشات موجود ہیں کہ یہ حکومت کو طاقتور بنا سکتا ہے، جس سے صحافیوں کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ صحافی برادری کا خوف یہ ہے کہ حکومت مختلف خبروں اور تجزیوں کی اشاعت کو روکنے کے لئے اس ایکٹ ناجائز کا استعمال کر سکتی ہے۔
– پییکا ترمیمی ایکٹ میں “فیک نیوز” کے خلاف سخت سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے، جس کی وضاحت اور تعریف کے طریقے مبہم ہیں۔ اس کی وجہ سے صحافیوں کی جانچ پڑتال کرنے کا عمل ممکنہ طور پر ان کی رپورٹنگ کو متاثر کر سکتا ہے۔
– اس آرڈیننس کی بنیاد پر اتھارٹی کے خلاف آواز اٹھانا اور سوالات اٹھانا خطرناک ہو سکتا ہے، جس سے صحافی خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، اور وہ اپنی جانب سے کی جانے والی تنقید سے گریز کر سکتے ہیں۔
– حکومت کے سامنے سوالات اٹھانے پر درپیش خطرات، جیسے کہ قانونی کارروائیاں یا دھمکیاں، صحافتی آزادی پر براہ راست اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اب جبکہ پیکا ایک ایکٹ بن چکا ہے تو اس ایکٹ میں ترامیم کرانے کے لیے صحافی تنظیموں کو مشاورت اور مکالمے بازی کا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے نا کہ مختلف دھڑوں کے زریعے محض احتجاجی طریقہ کار۔
– صحافتی تنظیموں کو حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ اپنے خدشات کو پیش کیا جا سکے۔
– عوام میں آگاہی پھیلانے کے لئے مکالماتی مہمات چلائی جا سکتی ہیں تاکہ عوام کے سامنے اس ایکٹ کے منفی اثرات کو پیش کیا جائے۔
– بنیادی حقوق کی پامالی کے حوالے سے عدالت میں درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیں، تاکہ اس آرڈیننس کے کچھ حصوں کو چیلنج کیا جا سکے۔
سب سے اہم نکتہ !
– صحافتی تنظیموں کو باہمی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی آواز کو مزید طاقتور بنا سکیں اور ایک مشترکہ موقف اختیار کیا جا سکے۔
فیک نیوز کا خاتمہ یقینی طور پر ایک ضرورت ہے، خاص طور پر اس وقت جب کہ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات تیزی سے پھیلتی ہیں۔ تاہم، صحافیوں کا سیخ پا ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ فیک نیوز کے خاتمے کے نام پر اپنی بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کر سکتے۔
اب اس حوالے سے میڈیا اور حکومت کی کیا زمہ داری بنتی ہے آئیے دیکھتے ہیں
– میڈیا کو اپنی معلومات کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ جھوٹی معلومات کی اشاعت سے بچ سکیں۔ لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے انہیں آزادی کی ضرورت ہے، آزادی پر قدغن لگا کر وہ اس پر عملدرآمد کیونکر کرسکتے ہیں۔
– حکومت کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں فیک نیوز کا خاتمہ کرنے کے حوالے سے مؤثر پالیسی بنانا ہوگی، جبکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ صحافت کی آزادی متاثر نہ ہو۔
حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پییکا ایکٹ پر صحافتی برادری کی تنقید محض اس ایکٹ کی مخالفت برائے مخالفت نہیں، بلکہ ان کی آزادی اور حقوق کا دفاع بھی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اور صحافتی تنظیمیں مشترکہ طور پر فیک نیوز اور معلومات کی درستگی کو یقینی بنانے کے لئے کام کریں، جبکہ آزادیء اظہار کی حفاظت کو بھی مقدم رکھیں۔(مظہر جلالی)۔۔