تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
پاکستان میں حالیہ متعارف کردہ قانون سازی پیکا کے خلاف صحافی کمیونٹی، سول سوسائٹی اور اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج ہیں،مختلف صحافتی تنظیموں کی جانب سے پریس کلب میں احتجاجی دھرنے اور یومِ سیاہ منانے کی اطلاعات ہیں، ناقدین کا کہنا ہے کہ قانون سازی کا مقصد سوشل میڈیا پر متحرک سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانا ہے جبکہ حکومتی حلقے پیکا ایکٹ کو سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پراپیگنڈا اور فیک نیوز کے پھیلاؤ کے تدارک کیلئے اہم کاوش قرار دے رہے ہیں۔ پیکا ایکٹ پر حالیہ چپقلش نے مجھے ماضی کی اپنی عدالتی جدوجہد یاد دلادی جب میں نے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوکر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کے تدارک کی استدعا کی تھی، میری انتھک کاوشوں کی بدولت چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی نے انیس جون 2014ء کو اپنے تاریخ ساز فیصلے میں سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا تھا۔میں نے پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے اپنے کالم بتاریخ یکم جون 2017ء میں تحریر کیا تھا کہ آج روایتی میڈیا سمیت تمام ادارے سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہوچکے ہیں،تاہم پاکستان میں صحیح اور غلط معلومات کے درمیان تفریق کرنابہت ضروری ہے جبکہ مذموم مقاصد کیلئے پروپیگنڈا کرنے والے سماج دشمن عناصر کے خلاف کڑی کارروائی وقت کی ضرورت ہے۔میں نے گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں نافذکردہ انٹرنیٹ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان عالمی برادری کی نظروں میں کھویا ہوا اپنا وقار اسی صورت بحال کرسکتا ہے جب ہمارے ملک میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میںایک طرف سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو ایک مہلک ہتھیار کی صورت میں استعمال کررہے ہیں تو دوسری طرف پیکا ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کے مجوزہ قیام نے شدید بحث اور تنازع کو جنم دیا ہے، بل کے متن کے مطابق اتھارٹی کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنا ہے لیکن ناقدین بضد ہیں کہ سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا خفیہ مقصد سیاسی مخالفین کے خلاف سخت سنسر شپ اور آزادی اظہاررائے کو ختم کرنا ہے۔میں نے انہی عوامل کی بنا پرکوشش کی کہ دنیا کے دوسرے ممالک کا جائزہ لیا جائے کہ وہ اپنے ممالک میں سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو ریگولیٹ کرنے کیلئےکیا اقدامات کر رہے ہیں؟ کینیڈا مغربی دنیا کا اہم ملک ہے جہاں آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں لیکن انٹرنیٹ کے منفی استعمال کی روک تھام کیلئے آن لائن ہارم بل کینڈین پارلیمنٹ میں متعارف کروادیا گیا ہے جسکے تحت ڈیجیٹل سیفٹی کمیشن آف کینیڈا کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو سوشل میڈیاکا منفی استعمال کرنے والوں کو سزائیں بھی سنائے گا۔پڑوسی ملک بھارت نے آج سے پچیس سال قبل انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000کے تحت انٹرنیٹ پر سماج دشمن سرگرمیوں کے تدارک کو اپنی قومی ترجیحات میں شامل کرلیا تھا، اسی طرح امریکہ میں فیڈرل کمیونیکشنز کمیشن، برطانیہ میں آفس آف کمیونیکیشن،سنگاپور میں انفوکام میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی،یواے ای میں ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی، چین میں سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنہ جیسے حکومتی ادارے سوشل میڈیا پر منفی عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں،آج کے ڈیجیٹل دور میں دیگر عالمی ممالک بھی نفرت انگیز زہریلے موادکا تدارک اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے اپنے ریگولیٹری فریم ورک کو مسلسل اپ ڈیٹ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن بدقسمتی سے حکومت پاکستان ایک طویل عرصے سے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نفرت آمیز مواد کی تشہیر کی روک تھام کے حوالے سے کنفیوژن کا شکاررہی ہے، میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ہمیں قومی ترقی، ڈپلومیسی اور دیگر شعبہ جات میں کسی نہ کسی کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم دنیا میں کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے اور جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں۔آج سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام پر سب ایک پیج پر ہیں، تمام پروفیشنل صحافی فیک نیوز کو صحافت کے مقدس پیشے کیلئے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں، ہر سمجھدار انسان اپنے بچوں کو انٹرنیٹ پر سرگرم سماج دشمن عناصر کی پہنچ سے دور رکھنا چاہتا ہے، لیکن پھر آخر پیکا ایکٹ پر اتنا شورشرابہ کیوں ہورہا ہے؟ معاشرے کا سب سے زیادہ باشعورصحافی سوشل میڈیا اتھارٹی کے مجوزہ قیام پر احتجاجی تحریک چلانے پر کیوں مجبور ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اسکی سب سے بڑی وجہ ہمارا اپنا متکبرانہ رویہ ہے، ہم طاقت کے گھمنڈ میں کسی دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے، ہم بغیر سوچے سمجھے بیان بازی کرتے ہیں اورپھر اپنے خلاف بلند ہونے والی ہر آواز کو طاقت کے زور پردبانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاملہ اور زیادہ متنازع ہوجاتا ہے۔ میری نظر میں پاکستان میںپیکا ایکٹ سوشل میڈیا اور آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کے وسیع تر عالمی رجحان کا حصہ ہے، تاہم مجوزہ اتھارٹی کے پاس آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کے بے پناہ اختیارات سنسر شپ اور آزادی اظہار کی خلاف ورزی کے بارے میں خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر آگے بڑھ کر صحافی کمیونٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے راؤنڈٹیبل کانفرنس طلب کرے جس میں تمام فریقین کا موقف ٹھنڈے دماغ سے سناجائےاورڈائیلاگ کی میز پر بیٹھ کر اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کا دیرپا حل تلاش کیا جائے۔ایک متوازن اور باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنا کرہی ایک ایسا جامع ریگولیٹری فریم ورک تیار کیاجاسکتا ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال یقینی بنائے۔(بشکریہ جنگ)