پیکا ایکٹ میں ترامیم کو سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ایکسپریس نیوز کے مطابق پیکا ایکٹ میں ترامیم کے خلاف درخواست شہری قیوم خان کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست گزار نے پیکا کے خلاف سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے اور کہا ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترامیم بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، پارلیمان کو اختیار نہیں کہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی کرے۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ فل کورٹ نہ صرف ترامیم بلکہ اصل پیکا ایکٹ کا بھی بنیادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے، جعلی اسمبلی اور جعلی صدر کی جانب سے رولز بنانے کے عمل کو معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔دریں اثنا پیکا ترمیمی ایکٹ سندھ ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا۔ ایکٹ کے خلاف درخواست ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی گئی جس میں وفاقی حکومت، وزارت اطلاعات اور وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔موقف اپنایا گیا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت حکام کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے مواد ہٹانے اور بلاک کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ کے سیکشن 2 آر سب سیکشن ون ایچ میں جھوٹی یا جعلی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔درخواست میں کہا گیا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعے سچ کو سینسر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ارکان اسمبلی عوامی نمائندے ہیں، عوام کو ان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا حق ہے، پیکا ترمیم کے تحت وفاقی حکومت سوشل میڈیا کمپلین کونسل قائم کرے گی۔ سوشل میڈیا کمپلین کونسل کے اراکین کی ریٹائرمنٹ کے لیے کوئی حد نہیں ہے، پیکا ایکٹ میں جعلی یا جھوٹے مواد کی کوئی تعریف نہیں ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیکا ترمیم کو صحافیوں کے ذرائع تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جس سے صحافی کے ذرائع کو نقصان پہنچ سکتا ہے، پیکا ایکٹ ترمیم آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم غیر آئینی قرار دی جائے۔