peca ke khilaaf ki samaat wafaq ko mazeed 2 haftay ki mohlat

پیکا ایکٹ کتنا صحیح کتنا غلط؟

خصوصی رپورٹ۔۔

صحافتی تنظیموں اور حزب اختلاف کی مخالفت کے باوجود حکومت نے پیکا ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 منظور کرا لیا، جس کے مطابق آن لائن ‘جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی۔وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا دعویٰ ہے کہ ‘یہ بل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں، بلکہ ‘فیک نیوز‘ پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔پیکا ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بد امنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

قومی اسمبلی نے 23 جنوری 2025 کو ”پیکا ایکٹ” کی منظوری دی، جس کا مقصد ‘سوشل میڈیا انفلوئینسرز‘ اور ‘یو ٹیوبرز‘ کو قانون کے دائرے میں لانا قرار دیا گیا ہے، اس کے لیے اس ترمیمی بل میں نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹرائبیونل اور نئی تحقیقاتی ایجینسی کے قیام، اس کے جملہ اختیارات اور وظائف کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔یہ بل صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد نافذ العمل ہو چکا ہے، اس کے خلاف جہاں ملک بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں تحفظات ظاہر کر رہی ہیں، وہیں صحافتی تنظیموں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے بھی احتجاج جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے بھی اس پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس قانون کے مطابق ایسا مواد جو ‘نظریہ پاکستان‘ کے خلاف ہو، جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسائے، عوام یا گروہوں یا سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، ایسا مواد ‘غیر قانونی‘ ہو گا۔نفرت انگیز، توہین آمیز، فرقہ واریت ابھارنے اور فحاشی پر مبنی مواد کی بھی ممانعت ہو گی۔ یہاں تک کہ اراکین پارلیمان، عدلیہ اور مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہو گا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی پر بھی گرفت کی جائے گی۔ گزشتہ قوانین کی طرح چیئرمن سینیٹ، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کی جانب سے کارروائی سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔

کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات نشر کرنے کی اجازت نہیں۔ نیز پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔پیکا ایکٹ کے مطابق غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے 24 گھنٹے سے پہلے درخواست دائر کرنا ہو گی۔ جس پر کارروائی کی جا سکے گی۔

اس قانون کی وجہ سے بہت سی ایسی خبروں کی روک تھام ہو گی، جو عاقبت نا اندیش لوگوں کی خواہش پر مبنی ہوتی ہیں، اسے باقاعدہ مصدقہ خبر کہہ کر پیش کر دیا جاتا ہے اور وہ تیزی سے لوگوں میں سرائیت کر جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف و ہراس یا سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے سیاسی مخالفین نام نہاد سوشل میڈیا انفلوئینسرز بھی بغیر بتائے کہ یہ ‘پیڈ کونٹینٹ‘ ہے، بہت سی چیزوں کی ترویج خبر بنا کر کر دیتے ہیں، ردعمل کے بعد وہ اسے وضاحت میں اپنی تشہیری کاوش قرار دے دیتے ہیں، جب کہ اخلاقی و قانونی طور پر اس کی وضاحت انھیں اسی وقت کرنی چاہیے۔

اسی طرح ماضی میں ایک معروف ٹی وی اینکر نے ‘یوٹیوب‘ پر اپنے چینل کی شروعات کرتے ہوئے سنی سنائی سی ”خبر” کو پورے دھڑلے سے نشر کر دیا تھا کہ فلاں سیاسی راہ نما نے ہندوستان میں پناہ لینے کے لیے اپنا مذہب بدل لیا ہے، پھر اگلی ویڈیو میں وہ خاتون ناظرین سے معافی مانگتی ہوئی دکھائی دیں کہ انھیں تو فلاں ذریعے سے یہی پتا چلا تھا۔دیکھا گیا ہے کہ اکثر یو ٹیوبر اور مختلف نو آموز صارفین محض ٹریفک، کلکس، ویوز یا آن لائن رش لینے کے لیے بھی ادھر ادھر کی عام سی چیزوں کو بڑی خبر کی طرح پیش کر دیتے ہیں، انھیں یہ چیز ‘نیگیٹو مارکیٹنگ‘ لگتی ہے، گویا بدنام ہوں گے تو کوئی نام نہ ہو گا؟‘ اس طرح اب یہ چلن بھی ایک عام سی کاوش سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ صحافتی اخلاقیات میں یہ نہایت کریہہ جرم تصور کیا جاتا ہے۔یہ نہایت شرم ناک قدم ہے، اس کے نتیجے میں انھیں تو شاید لوگ پہچاننے لگیں، لیکن سماج کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کا ازالہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہوتا۔

اگرچہ ‘پیکا‘ کے قانون میں موجود کچھ چیزیں پہلے سے بھی موجود تھیں، لیکن اب حکومت نے اس میں ‘فیک نیوز‘ یا کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کو جرم قرار دے دیا ہے، تاہم اس کے لیے کچھ ‘غیر واضح‘ زبان کا استعمال کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں، حکومتیں ایسے قوانین کو خود پر تنقید روکنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔اس لیے یہ خدشات موجود ہیں کہ ‘پیکا‘ کے ذریعے عام اطلاعات کو روکنے اور تنقید کو پابند کرنے کی کوشش کی جائے گی، کیوں کہ اس میں کسی بھی ‘ناپسندیدہ خبر‘ کو کوئی بدنامی سمجھ لے یا کسی خبر پر یہ قیاس کر لیا جائے کہ اس سے افراتفری پھیلے گی۔ یقیناً اس حوالے سے بھی قانون کو بہ تر کرنے کی ضرورت ہے۔

’پیکا‘ کے ایسے مبہم مندرجات کو دور کرنا ضروری کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جس اتھارٹی میں اس ایکٹ کی سزاﺅں کا تعین کیا جائے گا وہ بھی حکومت ہی کے اثر رسوخ میں ہی ہو گی۔اس کو بہ تر کرنے کی بھی ضرورت ہے، تا کہ جعلی خبریں اور فرضی اطلاعات کے ساتھ انتشار پھیلانے اور سماج میں نفرتیں پھیلانے والا مواد ضرور روکا جائے، لیکن اس کے ساتھ ایک ضروری خبر اور عام سوال پوچھے جانے کے دائرے بھی محدود نہ ہوں، کسی صحت مند تنقید پر پابند سلاسل ہوئے جانے کا خوف ختم ہو۔

پاکستان ویسے ہی دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے، جہاں آزادی اظہار کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے، وہاں اب ایسے قوانین جن میں ابہام ہے اور حکومتوں کی جانب سے ان کے غلط استعمال کیے جانے کی ایک وسیع تاریخ بھی موجود ہے، یہ کوئی درست عمل نہیں ہے۔حکومت کو چاہیے کہ جعلی خبریں اور نفرت انگیز مواد پر ضرور بند باندھے، لیکن اس حوالے سے صحافتی تنظیموں اور ماہرین ابلاغیات کی مشاورت سے اس قانون میں مناسب ترامیم کر کے ایسے تمام خدشات کا راستہ روکے، تا کہ صحافتی آزادی کی پائمالی کو بڑھاوا نہ ملے اور عوام کے جاننے کا حق تلف نہ ہو۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں