peca act kisi press club sahafi event ke khilaf nahi

پیکا ایکٹ کسی پریس کلب، صحافی یونین کے خلاف نہیں۔۔

تحریر: ناصر جمال۔۔

قلم کار، شریفوں اور لیگیوں کا سخت ناقد ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے زرداری شریف یا آمر شریف محفوظ رہے ہوں۔ سب پر ایک جیسا ہی ہاتھ رکھا۔ اصل اپوزیشن، بلکہ تا ازل اپوزیشن میڈیا ہی ہے۔ سیاستدان تو ”پوزیشن“ بدلتا رہتا ہے مگر میڈیا، اپنے کام، قانون، نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کی نشاندہی پر ہمیشہ ہی سب کا معتوب ٹھہرا ہے۔ ’’وہ‘‘ ہمیشہ کمزور اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔’’وہ‘‘ سے مراد ”صحافتی القاعدہ“ ہیں۔ وگرنہ آج 95فیصد اکثریت، ”الفائدہ“ کی غماز ہے۔ بونافائیڈی صحافی، متوازن رہتا ہے۔ وہ ریاست، آئین، قانون، عوام اور اچھے کام کے ساتھ ہمیشہ کھڑا ہوتا ہے۔

خبر دینے والے صحافی، تنقید کرنے والے قلم کار، ہمیشہ سے سب کے ہی ناپسندیدہ لوگ ہوتے ہیں۔صحافی، چیزوں کو تنقیدی زاویئے سے ضرور دیکھتا ہے۔ مگراُس کے پیچھے تعمیر اور بہتری کی سوچ چھپی ہوتی ہے۔ وہ ’’نقش کہن‘‘ مٹا دینے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قلم کار، اپنا قلم صرف تنقیدی تصویر یا تصور دکھانے میں لگاتے ہیں۔ جب انھیں، بہتری نظر آتی ہے۔ تو وہ دل کھول کر اُس کی تحسین بھی کرتے ہیں۔

قلم کار نے ساڑھے تین سال، عمران خان اور ان کی حکومت جماعت کا بے رحمانہ محاسبہ کیا۔ ہر حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ 29 سالہ کیریئر میں بہت بہاریں اور خزائیں دیکھیں۔ قلم کی حُرمت برقرار رکھنے کے لئے، اپنے تئیں کوششیں کیں۔ ظاہر ہے یہ بہت مشکل کام ہے۔ صحافت، سیدھی سڑک پر سفر کرنے کا نام نہیں ہے۔ سیدھی سڑک صرف، جھکنے والوں کو ہی میسر ہوتی ہے۔ اس پر چلنے والے 95 فیصد لوگ، آج صحافت کو وینٹی لیٹر پر لے آئے ہیں۔ جسے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ صحافت کا قلعہ اسٹیبلشمنٹ اور اُس کے اتحادی سیاستدانوں نے مسلسل حملے کرکے فتح کر ہی لیا ہے۔یہ سب صحافتی ”بروٹسسز“ کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم انہیں یہ بھی نہیں کہتے ”بروٹس یو ٹو“ کیونکہ ہمیں یہ سب کچھ پہلے سے ہی پتہ تھا۔

مزاحمت، وہ کررہے ہیں۔ جو پہلے ہی اس قلعے کے حالات دیکھتے ہوئے۔ باغی ہوگئے۔ اور خبر کے خطرناک جنگلوں، پہاڑوں اور کارزاروں میں چلے گئے۔ جب موقعہ ملتا ہے۔ گوریلہ حملہ کرکے، کسی نہ کسی کو گھائل کرتے رہتے ہیں۔ اور معتوب ٹھہرتے ہیں۔آج ’’پیکا ایکٹ‘‘ کسی میر شکیل الرحمٰن یا اس کے حواریوں کے خلاف نہیں لایا گیا۔وہ تو پہلے ہی آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ یہ کسی پی۔ بی۔ اے، اے۔ پی۔ این۔ سی، سی۔ پی۔ این۔ ای، کسی پریس کلب یا صحافی یونین کے خلاف نہیں ہے۔ یہ تو چند سر پھرے صحافیوں اور آزاد قلم کاروں کے لئے لایا گیا ہے۔صحافتی امام مسلموں کے پیچھے سے، سب کے سب نام نہاد صحافتی سردار اور ان کے حواری تو کب سے غائب ہیں۔ یہ جنگ کربلا والوں کے نقش قدم پر چلنے والوں کو ، ان کی طرح ہی تن تنہا لڑنی ہے۔

امام عالی مقام کے ساتھ بھی صرف 72 ہی تھے۔ ہر عہد میں، جہاں ظلم کا دور دورہ  ہو۔ وہاں تن تنہا ہی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

قارئین !!!اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جب تحریک انصاف اور عمران خان پر مظالم کی انتہا ہوگئی تو ان کے حق میں ایک کالم لکھا۔ برادرم فواد چوہدری نے کُھلے دل سے ٹویٹر پر تسلیم کیا کہ ’’ناصر جمال تحریک انصاف اور عمران خان کے بڑے ناقدین میں سے ہیں۔ مگر ان کے آج کے کالم نے دل دھلا دیا ہے۔ ہم نے مشرف کے خلاف صرف لکھا ہی نہیں تھا سڑکوں پر نعرے لگائے تو، مگر ہر دور میں اچھے کاموں کی تحسین بھی ضرور کی ہے۔

مریم نواز، میڈیا کے محاذ پر ’’اوور ڈوئنگ‘‘ کررہی ہیں۔وہ ہر روز اپنی زنبیل سے ’’نت نئی چیز‘‘ نکالتی ہیں۔ گندم اسکینڈل اور ہینڈلنگ، مجھے پسند نہیں آئی۔ا سکولوں کے حوالے سے اُن سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسے بہت بہتر کیا جاسکتا تھا۔بہرحال !!! مریم نواز نے تجاوزات کے خلاف جو بھرپور آپریشن شروع کیا اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے مکمل طورپر الگ اور محفوظ گرین لائن سڑک دی ہے۔ وہ انتہائی تحسین کے لائق اقدام ہیں۔ یہ ہمارے خواب تھے۔ انھوں نے ریڑیوں کو ترتیب میں لانے کا بھی احسن کام کیا ہے۔انھوں نے تاجروں کی لاقانونیت، بدمعاشی، بھتہ خوری، زور زبردستی کو جس طرح سے آہنی ہاتھوں اور عزم سے نمٹنا شروع کیا ہے۔ انھیں یہ کام اُدھورا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ہمارے بازار بدصورتیوں میں نمبر ون ہیں۔ ناجائز منافع خوری ان کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ اپنی دکانوں کے سامنے پتھارے کھوکے لگانے والوں سے اربوں روپے بھتہ لیتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں، انتظامیہ اور ان کا انتہائی مضبوط کارٹل ہے۔

اب جبکہ ڈی۔ ٹی۔ ایچ (ڈائریکٹ ٹو ہوم) آنے کو ہے۔ وہاں جو رکاوٹیں اور مسائل حل ہوگئے ہیں۔ کیبل کا خاتمہ کریں۔ یہ شہروں کے بدترین تعارف ہیں۔ ہر شہر کا حسن کیبلوں کے تاروں نے گہنا دیا ہے۔ گھٹیا کوالٹی کی سروس ہے۔ یہ الگ سے ایک مافیا ہے۔

جب جاپان کی تعمیر نو شروع ہوئی تو انھوں نے سوچ بچار شروع کی شروعات کہاں سے کی جائے۔ اس فکر کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی۔ ’’سڑک‘‘ وہ جگہ ہے۔ جہاں لوگ ایک دن سب سے زیادہ آتے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہاں قانون کا نفاذ سب سے سخت ہونا چاہئے۔آج مثال دی جاتی ہے۔ اگر آپ نے دنیا کے کسی بھی خطے میں قانون کی طاقت کو جانچنا ہو تو وہاں سڑک پر چلیں جائیں۔ اگر وہاں نظم و ضبط ہے تو سمجھ لیں۔ ملک میں ہر جگہ قانون کی حکمرانی ہے۔اس کسوٹی پر آپ ہماری سڑک کو پرکھیں تو آپ کو شدید مایوسی ہوگی۔ ہماری سڑک، بازار او چوراہے، بتا رہے ہیں۔ وہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ تاجروں، قبضہ مافیا اور گداگروں کی حکمرانی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو یقینا دبے دبے لفظوں میں ساتھی ڈرا رہے ہونگے۔ سفارشیں آرہی ہونگی۔ بہت ہوچکا۔ بس کردیں۔

میرا یقین ہے کہ یہ کام بظاہر، گناہ بے لذت محسوس ہوگا۔ مگر مریم نواز کی یہ پہلی زوردار اور پختہ سیاسی انٹری ہے۔ وہ عام آدمی کے دل و دماغ پر دستک دے چکی ہیں۔ پنجاب کے تیرہ کروڑ لوگوں میں سے چند ہزار لوگوں کے دلوں پر یہ ناگوار ہے۔ غالب ترین اکثریت تجاوزات سے پاک بازار، راستے اور سڑک چاہتے ہیں۔ وہ سڑکوں پر موٹروے کی طرح قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔

قانون کی حکمرانی عدالتیں نہیں، منتظم کیا قائم کرتے ہیں۔ آپ کو سڑک، راستے، بازار قبضہ مافیا سے واگزار کروانے ہونگے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کروانے ہونگے۔ ریڑھی بانوں کا سروے کروائیں۔ ان کے لئے نئے جمعہ ، اتوار، منگل بازار بسائیں۔ بہت جگہیں ہیں۔ ان کے لئے الگ مارکیٹیں بن سکتی ہیں۔ پارکنگ سے مافیاز کا خاتمہ کریں۔ بازاروں میں زیر زمین بجلی کی تاریں، اچھی لائٹس لگائیں۔ دکانوں کے خوبصورت بورڈز اچھی کاوش ہے۔ تاجروں سے برآمدے واگزار کروائیں۔جبکہ دکانوں کے سامنے برآمدے لازمی بنوائیں۔ ان کی دکانیں پیچھے ہٹوائیں۔

پورے پنجاب میں موٹر سائیکلوں کے ٹریک الگ کریں۔ ان کی کراسنگ و یوٹرن کے لئے فولاد کے پُل بنوائیں۔ یوٹرن ختم کریں۔ سڑکوں کی چوڑائی اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ انکی مینجمنٹ مسئلہ ہے۔ پورے پنجاب میں تاجرورں نے تباہی مچائی ہوئی ے۔ ان سے سڑک، برآمدے، راستے لینے ہونگے اور مستقل لینے ہونگے۔ کیا میکڈونلڈ اور کے۔ ایف۔ سی بھی اپنی دکھانوں کے باہر برگر اور چکن لٹکاتے ہیں۔دکھانوں کے باہر سامان لٹکانے کا خاتمہ کریں۔ ہر جگہ ترچھی پارکنگ کی لائنز لگائیں۔ پارکنگ پلازہ بنائیں۔ پنڈی صدر کی طرح، جیسے بنک روڈ کو بنایا گیا ہے۔ ہمیں شہر خوبصورت کرنا ہونگے۔

’’مریم نواز‘‘ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈٹنا ہوگا۔ اس کے نتائج آئیں گے۔ بازاروں کو خوبصورت بنا دیں۔ سڑک پر قانون کی حکمرانی قائم کردیں۔ آپ کے پاس عوام کو بتانے کے لئے، یہ سب سے اہم ایجنڈا ہوگا۔

باقی رہ گئی بات، حکومتوں کے قانونی ہونے کی تو سب کے سب مینڈیٹ کمپرومائز تھے۔ وگرنہ پاکستان نہ ٹوٹتا۔ سب کے مینڈیٹ ایک جیسے ہیں۔ یقیناً اس صورتحال کو تبدیل ہونا چاہئے۔ آپکو فی الحال کام کرنا چاہئے۔ پنجاب، بیانیے اور ایجنڈے سے نہیں کام سے واپس لیا جاسکتا ہے۔(ناصر جمال)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں