تحریر: آغا خالد۔۔
صحافی برادری کی سب سے بڑی ملک گیر تنظیم پی ایف جے کی اسلام آباد میں سہ روزہ بی ڈی ایم، فروری 2025 کی آخری دہائی میں ایک یادگار تقریب تھی جس میں سیکھنے سکھانے کا عمل بہت ہی دلچسپ اور سبق آموز تھا عموما میں عملی سیاست سے پہلو بچاتا ہوں مگر ساتھیوں کے اصرار پر اس دفعہ بلکہ پہلی مرتبہ کسی دوسرے شہر کی تقریب میں شرکت کی تو اپنی کوتاہی کا احساس ہوا کہ سیکھنے کے ان بہترین مواقع سے میں کیوں محروم رہا اس سہ روزہ بی ڈی ایم کا شروع سے ماحول حکومت مخالف تھا وجہ اس کی پیکا آرڈیننس بنا یہی وجہ ہے کہ بی ڈی ایم کی سب سے یادگار تقریب 23 فروری کی وہ بریفنگ تھی جو بی ڈی ایم کی میزباں آر آئی یو جے کے مبارک زیب نے قد آور اسکرین پر آڈیو وڈیو شاٹس کے ذریعے دی ڈیڑھ گھنٹے کی اس طویل بریفنگ میں پی ایف یو جے کے ملک بھر سے آئے ساڑھے 4 سو مندوبین کو پیکا ایکٹ کی ظالمانہ دفعات اور شقوں سے نہ صرف روشناس کرایا گیا بلکہ میزبان کا کمال یہ تھا کہ سوشل میڈیا کے فعال ہونے کے بعد سے امریکہ، انگلینڈ، فرانس، جرمنی سمیت ہمارے پڑوسی ممالک میں لائی گئی آئینی اور قانونی اصلاحات کا پیکا ایکٹ سے موازنہ بھی پیش کیا دنیا میں کہیں بھی ایسی اندھی دفعات آزادئیے صحافت کو کچلنے کے لیے نہیں بنائی گئیں جبکہ اس موقع پر قائد صحافت افضل بٹ نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ ہمارے ہر احتجاج
پر حکومتی زعما کہتے ہیں آپ ہمیں بتائیں تو صحی کہ پیکا ایکٹ کی کن شقوں پر آپ کو اعتراض ہے اور اعتراض کی توجیہ بھی بیان کریں کہ کیوں اعتراض ہے اب ہم مبارک زیب کی محنت سے تیار کیے گیے ڈرافٹ کی مدد سے انہیں شق وار تفصیلی بل بناکر دیں گے جن میں ٹھوس دلائل اور اعتراضات شامل ہوں گے اس موقع پر قائد صحافت نے مبارک زیب کی کاوشوں کو سراہا جبکہ ان کی درخواست پر کھچا کھچ بھرے ہال نے کھڑے ہوکر تالیوں کی گونج میں انہیں دیر تک خراج تحسین پیش کیا یوں تو آر یو جے کا ہر رکن تعریف کے قابل ہے جنہوں نے ساڑھے 4 سو مہمانوں کی تمام بنیادی ضروریات کا اہتمام کیا اور ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر بھی واری اور قربان جاتے رہے مگر مبارک زیب اور ان کے ساتھیوں نے تو کمال ہی کردیا 3 روز تک گھنٹوں ایک ہی کرسی پر بیٹھ کر بی ڈی ایم کی کاروائی جس حوصلہ، لگن اور برداشت سے چلائی یقینا اس پر ایوارڈ تو بنتاہی ہے، بی ڈی ایم کے ہر روز 3 سے 4 سیشن منعقد ہوے اور ہر سیشن ڈھائی سے 3 گھنٹے کا ہوتا تھا کمال یہ تھا تمام سیشن ہائوس فل رہے اور ممبران نے ہر سیشن میں بھرپور دلچسپی ظاہر کی یہی اس بی ڈی ایم کی بڑی کامیابی رہی مختلف سیشنز میں صحافیوں کی بے روزگاری اخباری اور الیکٹرونک صحافتی اداروں کے تیز تر زوال پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور اکثر مقررین نے اسے صحافی برادری کی اپنی کوتاہی سے تعبیر کیا جو تیز تر سائنسی ترقی اور اس کے مستقبل پر اثرات کو بروقت محسوس نہ کرسکے جبکہ یورپ سمیت دنیا بھر میں اخباری صنعت کم از کم 5 سال قبل ہی زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی تھی جس کی گاہے بگاہے خبریں بھی چھپ رہی تھیں جبکہ دوسری غلطی ہمارے سینئرز سے یہ ہوئی کہ انہوں نے بدلتے حالات میں اپنے آپ کو ڈھالا نہیں اور صحافت کے نئے اسلوب سے بروقت ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے آج پریشان ہیں دنیا بھر میں صحافت کے نئے انداز اور ذرائع روشناس کروائے جارہے ہیں جنہیں اپنانے والے ہی مستقبل میں صحافی کہلا سکیں گے، بی ڈی ایم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی وہ منتخب باڈی ہے جس کے ممبران ملک بھر سے جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو پھر مرکزی قیادت کے مستقبل کا فیصلہ کرکے ہی واپس آتے ہیں اس مرتبہ بھی 22 فروری کی شب تیسرے سیشن کے مکمل ہوتے ہی یوجیز کے صدور اور سیکریٹریز کو افضل بٹ اور سیکریٹری جنرل ارشد انصاری نے طلب کیا جس میں کراچی سے سالار قافلہ طاہر حسن خان اور سردار لیاقت کشمیری شریک ہوے اجلاس میں نئے انتخابات کے متعلق حاضرین کی رائے لی گئی جس پر تمام عہدیداران نے متفقہ طور پر دونوں قائدین کو ایک بار پھر قیادت سنبھالنے کی درخواست کی تاہم چھوٹے عہدوں پر ہر یوجیز نے اپنے مطالبات رکھے مگر اس پر بھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی بحث و تمحیص کے بعد اتفاق ہو ہی گیا اور یوں تیسرے روز کے آخری سیشن میں نئی قیادت کے انتخاب کا الیکشن بورڈ نے اسٹیج پر آکر اعلان کیا اور اس کے ساتھ نعروں کی گونج اور پنجاب کے روایتی ڈھول باجوں کے درمیان جیتنے والوں کے گلے ہاروں سے لاد دیے گئے جبکہ منتخب قیادت کے ساتھ مندوبین (صرف) پھولوں کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے رہے، اس انتخاب میں مظہر عباس جیسے قد آور صحافی رہنما کا ایف ایس سی میں انتخاب تھا جبکہ ان کے ساتھ خورشید عباسی، امتیاز فاران، ایوب جان سرہندی اور ہارون خالد بھی منتخب ہوے جبکہ جاوید اصغر چودھری اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل چنے گئے، اسی طرح ایف ایس سی کے اگلے اجلاس کی میزبانی کے یو جے نے قبول کی، کراچی سے 40 سے زائد مندوبین شریک ہوے جن کی اکثریت جنرل سیکریٹری سردار لیاقت کشمیری کی قیادت میں ٹرین سے اسلام آباد پہنچی خصوصی دعوت پر کراچی کی صحافت کے سرتاج مظہر عباس سمیت کئی دیگر طیارے سے گئے جبکہ سفر کے لیے سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بھی تعاون کیا مگر تعاون میں تاخیر کی وجہ سے اکثر ساتھی مستفیض نہ ہوسکے تاہم اس کا فائدہ سکھر کے ساتھیوں نے خوب اٹھایا کیونکہ ہم لوگوں نے معروف صحافی رہنما اور قائد خورشید عباسی کی قیادت میں 19 اور 20 فروری کی درمیانی شب سکھر پریس کلب کی میزبانی میں گزاری جہاں لالہ اسد پٹھان نے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا وہاں سے ایس یو جے کے 5 ساتھی ہماری ہائی ایس میں سوار ہوے اور اسلام آباد تک ساتھ رہے جبکہ لالہ اسد بھی ہمارے ساتھ اپنی کار میں ہم رکاب رہے لالہ نے اپنے ساتھیوں کے لیے چھوٹی بس کا انتظام بھی کیا ہوا تھا وہ بھی سکھر سے ساتھ ہی چلتے رہے اور ایک ساتھ اسلام آباد پہنچے جہاں سے ان کا پروگرام بی ڈی ایم کے اختتام پر ایک ہفتہ کے لیے سوات کالام وغیرہ کا تھا اسی طرح ہمارا پروگرام بھی بی ڈی ایم کے بعد کم از کم 2 روز گھومنے پھرنے کا تھا مگر شومیے قسمت کہ ہماری ہائی ایس کا ڈرائور بیمار ہوگیا کچھ اکثر ساتھیوں کی واپسی کی ٹرین کی پہلے سے بکنگ تھی جس کی وجہ سے ہمیں بھی اگلا تفریحی دورہ ملتوی کرکے واپسی کرنا پڑی جبکہ کراچی سے معروف صحافی رہنما امتیاز فاران، جاوید چودھری، مشتاق سہیل، پیران پیر نعمت بخاری، اسلم شاہ آفتاب ملک، بھٹی، اور دیگر الگ سے مگر شریک سفر رہے۔(آغا خالد)۔۔