peca qanoon se satae sahafi

پیکاایکٹ، حکومتی موقف کیا ہے؟

خصوصی رپورٹ۔۔

پیکا ترمیمی بل 2025 پر ہونے والی تنقید اور حکومتی اداروں کی جانب سے اس قانون کے استعمال پر اٹھنے والے اعتراضات پر حکومتی جماعت کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال ہوا اور ایسی مثالیں سامنے آئیں تو پھر یقینا حکومت اس پر دوبارہ غور کرے گی، اس میں ترمیم کرے گی اور اس قانون کو مزید بہتر کرے گی۔ تاہم حکومت نے اس حوالے سے کچھ ریڈ لائن اور گائیڈ لائن کا تعین بھی کرنا ہے تاکہ توازن قائم رہے۔

خرم دستگیر کے مطابق ’اس وقت بڑا چیلنج آزادی اظہار اور آزادی شتر بے مہار میں توازن کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر ملکی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی ہو رہی ہے اور نفرت انگیز مواد پھیلایا جا رہا ہے جس کا تدارک بھی ضروری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا آئین بھی جہاں آزادی اظہار رائے دیتا ہے وہیں کچھ حدود و قیود کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ کیسے آپ نے خارجہ پالیسی، فوج اور عدلیہ سمیت اہم امور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔صحافیوں کے خلاف اقدامات سے متعلق سوال پر خرم دستگیر نے کہا کہ ’صحافی بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ری ٹویٹ والی مشین نہ بنیں بلکہ وہ کوئی مواد شئیر کرنے سے قبل حقائق کی خوب چھان بین کر لیں۔

پاکستان کی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے صحافیوں اور عام شہریوں کے خلاف پیکا قانون کے مبینہ غلط استعمال پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے 26 مارچ کو پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں اس وقت ایک تلخ ماحول بن چکا ہے اور گذشتہ تین چار برسوں سے سوشل میڈیا نے اس میں بہت کردار ادا کیا ہے۔

پروگرام میں پیکا قوانین کے مبینہ غلط استعمال پر حکومت کو پہنچے والے سیاسی نقصان کے سوال پر وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو اس قانون کے غلط استعمال کی بلکل پرواہ ہونی چاہیے، حکومت کو اپنے نفع نقصان کی پرواہ بھی ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مگر کیا جو حالات آج ہیں اس سے پہلے ایسے حالات کبھی ہوئے تھے۔ سیاسی مخالفین کی عزت سانجھی ہونی چاہیے لیکن آج سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی بہن بیٹیوں کو سوشل میڈیا کی زینت بنا رہے ہیں۔

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ’اس قسم کا عمل کس قسم کے ردعمل کو جنم دے گا، سوشل میڈیا پر ملک سے باہر اور اندر موجود چند صحافی اور نام نہاد صحافی اس قسم کے تبصروں کو ری ٹویٹ کر دیتے ہیں یا ذو معنی قسم کا تبصرہ کرتے ہیں اور سب سے زیادہ سیاسی مخالفت میں ایسی کسی بات کی کم از کم مذمت نہیں کرتے۔ یہ صحافت نہیں ہے اور اگر کوئی اس قسم کی صحافت پر حملہ قرار دے تو میں اس سے متفق نہیں ہوں۔

تاہم اس سے قبل خواجہ آصف نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جو سلسلے ہیں کہیں سیاستدان تو کہیں صحافی حدود کراس کر جاتے ہیں اور ہمارے حالات سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے اور صحافی برادری کوئی اس سے آئسولیٹ یعنی لاتعلق تو نہیں ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں