تحریر: علی احمد ڈھلوں
جب بھی موجودہ حکومت اقتدار میں آتی ہے، تو اُسے سب سے بڑا مسئلہ اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا یا صحافیوں سے ہوتا ہے،حالانکہ یہ سب سے زیادہ صحافیوں کی منظور نظر جماعت ہے، جو صحافیوں کو عہدے بھی دیتی ہے، مراعات بھی دیتی ہے، اور شاید اندر کھاتے کچھ رقوم بھی۔ لیکن جو صحافی یا صحافتی ادارے اس کے من پسند نہ ہوں، اور اس کی مرضی کی خبریں نہ چلا رہے ہوں، یہ اُن کے اشتہارات بھی بند کرتے ہیں، اُنہیں دھمکاتے بھی ہیں ، اُن کے لیے نئے قوانین بھی بناتے ہیں، اور بسا اوقات تو ناقد صحافیوں کو فارغ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ اس جماعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے شاید ایک آمر کی کوکھ سے جنم لیا ہے، شاید اس لیے اس کی طبیعت بھی آمرانہ ہی ہے۔ ورنہ جمہوری ادوار میں حکومتوں پر بہت سا دباﺅ بھی ہوتا، اُن کے خلاف بہت سے سکینڈلز بھی نکلتے ہیں، اُن کے خلاف نیب انکوائریاں بھی لگاتی ہے،،، مگر ہم نے دیکھا ہے کہ موجودہ حکومت کے چاروں ادوار میں ہی عدم برداشت کا عنصر ملتا ہے۔ آپ 90ءمیں ملنے والی حکومت کو دیکھ لیں، انہوں نے پہلی بار سیاسی مقدمات کا آغاز کیا ، جسے 1997-99ءکے دور میں انتہا کو پہنچا دیا ، اور پی پی پی کے قائدین پر سینکڑوں قسم کے مقدمات درج کروائے،،، پھر 2013ءمیں انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے سب سے پہلے جنرل مشرف کو عدالتوں میں گھسیٹا، مگر بھلا ہو طاہر القادری کا جن کے ”دھرنوں“ نے حکمرانوں کو اُن کی اوقات دکھا دی، اور انہیں تھوڑا ہولہ رکھا،،، پھر ان کے ہتھے اُبھرتا ہوا سوشل میڈیا چڑھ گیا تو یہ 2016ءمیں پیکا ایکٹ اسمبلیوں سے منظور کروایا، تب بھی یہی کہا گیا کہ ہم فیک نیوز کو ختم کرکے رہیں گے،،، لیکن چند مہینوں کے اندر اندر کچھ غیر مرعی قوتوں نے ایف آئی اے کے ذریعہ پیکا ایکٹ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا۔ اُس وقت بھی اپوزیشن پی ٹی آئی ہی تھی۔ اور پھر آج کے دور حکومت کو دیکھ لیں آپ کو موجودہ حکومت کے دور میں کسی آمر کے دور کی یاد نہیں آئے گی۔ مطلب! ان میں تکبر نہ جانے کس چیز کا پایا جاتا ہے، حالانکہ یہ ہر مرتبہ اپنے تکبر اور اختیارات کے غلط استعمال اور طاقت کو ایک جگہ اکٹھاکرنے کے چکر میں اپنی ہر دفعہ حکومت گنوا بیٹھتے ہیں لیکن کوہلو کے بیل کی طرح یہ ہر دفعہ وہیں سے آغاز کرتے ہیں جہاں سے چھوڑا تھا۔
خیر ہمارا آج کا موضوع وہی پیکا ایکٹ ہے، جسے ن لیگ نے 2016ءمیں شروع کیا تھا، پھر اسی کو خان صاحب کی حکومت نے چند ترامیم کے بعد آگے بڑھایا، حالانکہ خان صاحب چاہتے تو اسے ختم کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اور اب اس حوالے سے مزید سخت ترامیم لائی گئی ہیں،،، جس کے بعد ملک بھر میں صحافی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے اس ترمیمی پیکا ایکٹ کے بارے میں بتاتا چلوں کہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا بل (Prevention of Electronic Crime Act 2025) ہے جسے عرف عام میں PECAایکٹ 2025ءکہا جاتا ہے۔ اس بل کے مطابق ایسا کانٹینٹ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، ایسا مواد جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کیلئے اشتعال دلائے، یا عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، ایسا مواد غیر قانونی ہے۔ عوام یا ایک سیکشن کو حکومتی یا پرائیوٹ پراپرٹیز کو نقصان پہنچانے کیلئے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زنگی میں خلل ڈالنا بھی ممنوع ہوگا۔ نفرت انگیز، توہین آمیز، فرقہ واریت ابھارنے اور فحاشی پر مبنی کانٹینٹ کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ بل کے مطابق اراکین پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں اور دہشتگردی کو حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا۔ چیئرمن سینیٹ، سپیکر قوم اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اس قانون کے تحت وفاقی حکومت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنےکیلئے ایک اتھارٹی قائم کریگی اور یہ اتھارٹی فیک نیوز کا سدباب کریگی۔
اب اس بل کے آنے کے بعد سب کو علم ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے کارکنوں کو اس ایکٹ کے تحت نشانہ بنایا جائے گا، اور ہر خبر کا ذرائع مانگنے کے بعد اُسے تحقیقاتی کونسل رد کرے گی، اور پھر اس طرح سزائیں دی جائیں گے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اتھارٹی ویسے ہی کام کریگی جیسے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کام کرتی ہے۔ کہنے کو پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن خود پیمرا والے ہمیں بتاتے ہیں کہ انہیں کہاں سے احکامات ملتے ہیں۔ اس نئے قانون کی منظوری کے بعد ہمارے خفیہ ادارے ”فیک نیوز“ کے نام پر اپنے ناپسندیدہ صحافیوں اور سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ میں زیادہ آسانی محسوس کرینگے۔ دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ مذکورہ قانون 1973ء کے آئین سے متصادم ہے لیکن آئین کی خالق جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس خلاف آئین قانون کے حق میں ووٹ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کی کچھ دیگر جماعتوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ءکی مخالفت کی لیکن ہم کیسے بھول جائیں کہ یہ ایکٹ دراصل اسی صدارتی آرڈی ننس کا چربہ ہے دو سال قبل نافذ کیا گیا تھا۔ اُس دور میں تو صحافیوں کو عدالتوں سے ریلیف مل گیا تھا مگر آج کے ”آمرانہ“ دور میں کسی کی جرا ¿ت نہیں ہے کہ وہ اسے رد کردیں۔
بہرحال میں یہ نہیں کہتا کہ فیک نیوز ہونی چاہیے،،، بلکہ اس جدید دور میں جب دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ، بانی فیس بک مارک زکر برگ وغیرہ یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ اب ”ایڈیٹر“ کی ضرورت نہیں رہی جو خبر کو چیک کر سکے، بلکہ ہر صارف خود ہی ایڈیٹر ہے تو ایسے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہیں، جو فیک نیوز کوروکنے کے لیے اقدامات کرے۔ اورپھر یہی نہیں بلکہ کئی ممالک اس حوالے سے قانون سازی بھی کر چکے ہیں ،،، جیسے سنگاپور میں 2019 ءمیں ایک قانون متعارف کروایا گیا، جس کے مطابق حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جھوٹی خبروں کو ہٹائے، حقائق درست کرے اور جھوٹی معلومات پھیلانے والوں پرجرمانے عائد کرے۔ اس کے لیے سنگاپور نے ڈھائی ارب ڈالر کا ایک سوفٹ وئیر تیار کروایا جس کے ذریعے پورے سوشل میڈیا پر آٹوچیک لگتا ہے،،، اور واقعی فیک نیوز پھیلانے والے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پھر جرمنی میں نیٹ ورک انفورسمنٹ ایکٹ نافذ کیا گیا، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جھوٹی اور نفرت انگیز معلومات 24 گھنٹوں کے اندر ہٹانے کا پابند بناتا ہے، بصورت دیگر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ فرانس نے 2018 میں ایک قانون بنایا جس کے تحت انتخابات کے دوران جھوٹی خبروں کے پھیلاﺅ پر سخت پابندی عائد کر دی گئی اور عدالتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی معلومات فوری ہٹانے کا حکم دے سکیں۔روس میں 2019 میں جھوٹی خبروں کے خلاف ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت جھوٹی معلومات پھیلانے پر جرمانے اور قید کی سزا دی جاتی ہے۔ ملائیشیا نے 2018 میں ایک قانون نافذ کیا جس کے ذریعے جھوٹی خبروں کو پھیلانے والوں پر بھاری جرمانے اور قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ایک قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نقصان دہ اور جھوٹی معلومات کو ہٹانے کا پابند کرتا ہے۔چین میں انٹرنیٹ پر سخت قوانین نافذ ہیں جہاں حکومت جھوٹی معلومات کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے جس میں جرمانے، قید اور آن لائن پابندیاں شامل ہیں۔ لیکن ان تمام ممالک نے سب سے پہلے اپنے اپنے ملک میں اتھارٹیز قائم کرنے سے پہلے انہیں وہ سافٹ وئیر، وسائل اور انفرادی قوت دی تاکہ کوئی اس قانون کی بھینٹ نہ چڑھ جائے،،، لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ فیک نیوز ہوتی کیا ہے،،، وہاں اس قسم کے قوانین مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ سوشل میڈیا کو Manualyیا عام ذرائع سے یا ”فیک آئی ڈی“ سے چیک کر سکیں؟ اور پھر جب تک وی پی این کا آپ کے پاس توڑ نہیں ہے، تب تک آپ کسی بندے کی شناخت کیسے کر سکیں گے کہ کون فیک نیوز پھیلانے کا ذریعہ بنا۔
اب اس کی مثال یہ لیں لیں کہ اگر ایک سوشل میڈیا پیج تحریک انصاف آفیشل کے نام سے بنا ہوا ہے، جسے کسی ن لیگ کے ایکسپرٹ نے بنایا ہوا ہے، اب وہ اس پیج پر اداروں کے خلاف مواد ڈال دے اور پھر پاکستان کے بہت سے لوگ جو آئی ٹی کے شعبے کو زیادہ نہیں جانتے وہ من و عن اُس کو شیئر کر دیتے ہیں تو اس کا الزام اُس ن لیگی پر ہوگا یا تحریک انصاف پر۔ یقینا سب کی انگلیاں تحریک انصاف پر اُٹھیں گی۔ اور کیا آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ آپ کے اداروںنے ہی ریسرچ کرکے بتایا تھا کہ تحریک انصاف کے متعدد پیجز انڈیا یا دوسرے ممالک سے چلائے جا رہے ہیں۔ تو کیا تحریک انصاف والے اتنے ہی باﺅلے ہو گئے ہیں کہ وہ انڈیا سے کہیں گے کہ ہماری مدد کو آئیں؟ یہ کامن سینس کی باتیں ہیں۔ لیکن حکومت نے اگر الزام دھرنا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ لہٰذاسب سے پہلے تو اگر فیک نیوز کو کنٹرول کرنا ہے تو ”حکمران“ سب سے پہلے خود فیک نیوز پھیلانا بند کرے تو میرے خیال میں بہت سے معاملات حل ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ اگر حکومت 8فروری کے الیکشن کو فیک نہیں کہے گی تو بتائیں کہ یہ ”فیک نیوز“ کی کیٹگری میں نہیں آئے گا؟ یا اگر حکومت یہ کہے گی کہ پاکستان کی شرح نمو 5فیصد ہے،، اور اگر وہ ماہرین کے مطابق 2فیصد بھی نہیں نکلتی تو عوام کو گمراہ کرنے کے جرم میں حکومت کے لیے کیا سزا ہونی چاہیے؟(بشکریہ نائنٹی ٹو نیوز)۔۔