تحریر: شہباز جندران۔۔
ابھی نیند سے پوری طرح بیدار نہیں ہوا تھا کہ لاہور پریس کلب کے سابق عہدیدار اور بول ٹی وی چینل کے سینئر کارپسانڈنٹ جعفر بن یار کی کال آ گئی-کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا ہے۔اسی سہ پہر جعفر بن یار میرے دفتر تشریف لے آئے- پیکاترمیمی ایکٹ 2025 پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
جعفر بن یار نے بتایا کہ ترمیمی قانون سنسرشپ اور ڈکٹیٹر شپ کا آئینہ دار ہے اس قانون سے صحافی ہی نہیں عام آدمی بھی متاثر ہوگا کوئی بھی ٹیکس گزار یا عام شہری اپنے ہی ووٹ سے کامیاب کروائے گئیے عوامی نمائندوں پر مثبت یامنفی تنقید نہیں کر پائیگاعملا”یہ قانون بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان کے خلاف ہے۔
ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا سے پتا چلا کہ صحافتی تنظیموں نے مل کر پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج شروع کرچکی ہیں ۔ہر چینل ہی صحافیوں کے ”پروٹیسٹ کی خبریں دے رہا تھا- مظاہروں کی ویڈیوز بھی دکھائی جا رہی تھیں- کراچی سے اسلام آباد تک صحافی اور صحافتی تنظیمیں ترمیمی ایکٹ کے خلاف سراپا احتجاج تھیں- صحافی سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے- لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پریس کلبوں کے اندر اور باہر بھی صحافیوں کا جم غفیر تھا- سب اس بات پر متفق تھے کہ ترمیمی قانون درحقیقت ایک کالا قانون ہے جو صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش ہے- یہ قانون بنایا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ سچ اور آزادءاظہار رائے کو سلب کیا جا سکے- صحافتی تنظیموں کا کہنا تھا جب تک اس پیکا ترمیمی ایکٹ کو واپس نہیں لیا جاتا، احتجاج جاری رہے گا-
دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز(ترمیمی) ایکٹ پہلی بار پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سال 2022میں لانے کی کوشش کی گئی – اُس وقت کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا- تاہم اس وقت اپوزیشن مسلم لیگ (ن) نے اس بل کی شدید مخالفت کی تھی۔اب صورتحال الٹ ہوچکی ہے اور دونوں جماعتوں کے کردار بدل گئے ہیں۔
بدھ 29جنوری کو جعفر بن یار کی طرف سے لاہور ہائی کو رٹ میںرٹ پٹیشن دائر کی گئی جس پر رٹ برانچ (ارجنٹ سیل )کی طرف سے منظور شدہ قانون کی اصل کاپی لف نہ کرنے کا اعتراض لگا دیا گیا 30جنوری کو پیکا ترمیمی ایکٹ 2025کے گزٹ نوٹیفکیشن کی کاپی لف کرتے ہوئے دوبارہ سے رٹ پٹیشن فائل کی گئی جو کہ سماعت کے لیے منظور کرلی گئی۔
جمعہ31جنوری کی صبح لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس فاروق حیدر کی عدالت نے 22ویں نمبر پر اس اہم کیس کی سماعت کی ۔ریڈر نے لاوئڈ سپیکر میں جعفر بن یار بنام فیڈریشن آف پاکستان کی آواز لگائی تو میں فوری روسٹرم پر پہنچا جعفر بن یار میرے عقب میں کھڑے تھے۔کمرہ عدالت میں میڈیا کے نمائندے اس کیس کی خصوصی کوریج کے لیے پہلے سے موجود تھے ۔
معزز عدالت کی طرف سے کیس کے متعلق مختصرا” استفسار پر میری طرف سے معزز عدالت کوبریف کیا گیا کہ یہ قانون جلد بازی میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر لایا گیا ہے اور اس کی متعدد دفعات بنیادی انسانی حقوق اور دستور پاکستان سے متصادم ہیں۔اس پر معزز عدالت نے فوری طورپر شارٹ آرڈر لکھواتے ہوئے وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے رپورٹ کے ساتھ ساتھ پیرا وائز کمنٹس طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کری۔میری طرف سے اس قانون کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا کی گئی تو معزز عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت کا موقف سامنے آنے دیں پھر ایک ہی دن میں اس کیس کا فیصلہ کردیا جائیگا۔میں نے کچھ دیر Assertکے بعد سرتسلیم خم کیا۔
سماعت کے فوری بعد لاہور ہائی کورٹ کے بوھڑ والا چوک(کیمرہ چوک) میں مختلف ٹی وی چینلز سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے نمائندوں نے جعفر بن یار سے کیس کے متعلق اور سماعت کے حوالے سے انٹرویو اور ساٹ کیئے ۔اور جعفر بن یار نے اس قانون کے خلاف اپنے اعتراضات، تحفظات اور عدالتی کارروائی بیان کی۔
پیکا ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے پر ملک بھر کی صحافتی کمیونٹی ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور صارفین کی طرف سے جعفر بن یار کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے عام صحافی اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے کہ جو کام صحافتی تنظیموں کو کرنا چاہیے تھا وہ ایک عام صحافی نے تن تنہا کردکھایا ہے ۔ قصہ مختصر اب دیکھتے ہیں کہ اس کیس میں وفاقی حکومت کی طرف سے کیا رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور تین ہفتے بعد عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔