Masroor Ahmed

پیس جرنلزم، فائدے کی صحافت۔۔

تحریر: مسرور احمد

پیس جرنلزم (Peace Journalism) یا صحافت برائے امن شعبہ ابلاغیات کا ایک اہم موضوع ہے جسے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک دانشورڈاکٹر جان گلتونگ (Johan Galtung) نے باقاعدہ اکیڈمک ڈسپلن کے طور پر فروغ دیا اور اس اعتبار سے انھیں اس شعبے کا بانی مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گلتونگ کے مطابق امن کا تعلق محض تناؤ کے عدم وجود سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے انصاف کا وجود بھی ضروری ہے اسی لئے انھوں نے ’امن سب کے لئے‘ (peace for all) کے نعرے کی بنیاد پر پیس جرنلزم کی بنیاد رکھی۔جان گلتونگ نے اپنے مقالات میں اسے دو اشاریوں منفی (Negative Peace) اور مثبت (Positive Peace) میں تقسیم کیا ہے۔ امن کے منفی اشاریے سے مراد کسی سوسائٹی میں تنازعات یا تشدد کا عدم وجود ہے جبکہ مثبت اشاریے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جہاں انصاف، برابری اور ہم آہنگی جیسی اقدار کو پزیرائی حاصل ہو۔ آمرانہ معاشرے جہاں بظاہر حکومتی جبر کے سبب امن و امان نظر آتاہے لیکن اندر ہی اندر لاوا ابل رہا ہوتا ہے امن کے منفی اشاریوں کی تشریح کرتے ہیں کیونکہ موقع ملنے پر جب وہاں لاوا پھٹتا ہے تو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ زیادہ دیر تک جبر کے ہتھکنڈوں سے لوگوں کو دبانا ممکن نہیں ہوتا، مسائل کا حل امن کے لئے ناگزیر ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مشرق وسطیٰ میں ’عرب بہار‘ اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ جہاں ریاستوں نے وقتی طور پر قوت کے بل بوتے پر امن قائم رکھا لیکن وقت آنے پر ان معاشروں میں انتشار پھیل گیا کیونکہ وہاں بنیادی معاشرتی مسائل کے حل کے لئے امن کے مثبت اشاریوں کو فروغ نہیں دیا گیا تھا۔ اس لئے جان گلتونگ امن کے مثبت اشاریوں کی اہمیت پر زیادہ زور دیتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کے بقول امن صرف منفی علامات (negative forces) جیسے جنگ، تناؤ اور مسائل کے عدم وجود سے نہیں بلکہ مثبت علامات (positive forces) جیسے انصاف اور دوسروں کے لئے خیر سگالی کے جذبات سے پہچانا جاتا ہے۔

وار جرنلزم اور پیس جرنلزم کو اسی سیاق و سباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں وار جرنلزم پراپیگنڈا، ردعمل، جنگ میں جیت اوراشرافیہ کے ’ہم اور وہ‘ اور تشدد کے اظہاری پہلوؤں جیسے بیانیے  کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے وہاں اس کے برعکس پیس جرنلزم جنگی صورتحال کو کنٹرول کرنے پر زور دیتے ہوئے، جنگ لڑنے والے فریقین کو انسانیت کا درس دینے اورجنگ سے متاثرہ ہر شخص کی آواز بنتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تجویز کرتی ہے۔

پیس جرنلزم کسی تنازعے میں پارٹی بننے اور انتشار پھیلانے والی خبروں سے گریز کرتی اور کسی ایک فریق کے مؤقف کو جانبدارانہ طور پر رپورٹ کرنے کی بجائے مجموعی طور پر امن کوفروغ دینے کی بات کرتی ہے کیونکہ جنگ میں نہ کوئی فاتح ہوتا ہے اور نہ مفتوح بلکہ جنگ انسانیت کی نفی ہوتی ہے۔ پیس جرنلزم محض تنازعہ کے فریقین پر فوکس کرنے کی بجائے اس تنازعہ کے سیاسی، مذہبی، گروہی، نظریاتی یا معاشرتی بدامنی کا سبب بننے والے دیگر مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتی اور انھیں رپورٹ کرتی ہے۔پیس جرنلزم (پی جے ) ایک وسیع اور دلچسپ موضوع ہے اور اس کی بنیاد مثبت اشاریے ہیں جو جنگ اور امن دونوں صورتوں میں قابل تقلید ہیں۔ یہ کسی بھی تنازعے کی وجوہات کا جائزہ لیتی اور تنازعے کے حل کے لئے فریقین میں مذاکرات پر زور دیتی ہے۔ پی جے تنازعہ کے متحارب گروپوں میں تقسیم پیدا کرنے کی بجائے انھیں مذاکرات کی میز پر اکٹھا کرنے پر زور دیتے ہوئے جھگڑے کے کسی ایک فریق کو اچھا یا کسی دوسرے فریق کو برا کہنے سے اجتناب کرتی ہے۔

پیس جرنلسٹ رپورٹنگ کرتے وقت نتائج سے لاپرواہ ہو کرذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی رپورٹنگ میں سوچ سمجھ کر درست اور مثبت الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں تاکہ ان کی کسی چھوٹی سی کوتاہی سے کوئی آگ نہ بھڑک اٹھے۔ وہ جنگ کے شکار علاقے سے لی گئی کسی ایسی تصویر کو رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے کوئی غلط فہمی یا انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ پیس جرنلزم نان سینس میڈیا (debunk media) کی طرف سے پھیلائے جانے والے دقیانوسی تصورات (stereotypes) ، روایتی باتوں (myths) اور غلط تصورات (misperceptions) پر مبنی بیانیے کے مقابلے میں جوابی بیانیہ (counter narrative) پیش کرتی ہے۔اگر ہم بڑے تناظر میں دیکھیں توکسی ریاست میں امن کا احاطہ کرنے کے لئے پیس جرنلزم منتخب جمہوری حکومتوں کے تسلسل، کاروبار کے لئے سازگار ماحول، کرپشن کے خاتمے یا اس میں کمی، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے، انسانی وسائل کی ترقی، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات، میڈیا کی آزادی اور ملکی وسائل کی مساویانہ تقسیم جیسے مثبت امن (positive peace) کے اشاریوں پر نظر رکھتی ہے اور انھی کی بنیاد پر مختلف ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

مثبت امن کو فروغ دینے والے ممالک کس قدر فائدے میں رہتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان اشاریوں میں بہتری سے فی کس جی ڈی پی میں 2.9 فیصد تک اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ 2005 سے لے کر 2017 کے درمیان جن ممالک نے مثبت امن کے اشاریے کو فروغ دیا وہاں اس سے غفلت کرنے والے ممالک کی نسبت جی ڈی پی میں دوفیصد زیادہ بہتری دیکھنے میں آئی۔ اس سے ملکی کرنسی کی قیمت مستحکم ہوتی ہے۔ وہ ممالک جہاں مثبت امن کے اشاریے مضبوط ہیں وہ بُرے وقتوں یا سانحات میں بڑے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ بڑے سیاسی یا قدرتی جھٹکوں کے امکانات ان ممالک میں 84 فیصد زیادہ ہوتے ہیں جہاں مثبت امن کے اشاریے کمزور ہوں۔زیادہ تر مثبت امن رکھنے والے ممالک میں انقلابی تحریکیں پُرتشدد نہیں ہوتیں اور ان کے اثرات محدود رہتے ہیں جبکہ کمزور مثبت اشاریے رکھنے والی ریاستوں میں پُرتشدد انقلابی تحریکوں کی کامیابی کے امکانات نوے فیصد تک ہوتے ہیں۔ 2005 سے 2015 کے درمیان قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح ان ممالک میں جہاں مثبت اشاریے کمزور ہیں دیگر ممالک کے مقابلے میں 13 گُنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان بھی ان ممالک میں سے ہے جہاں مثبت امن (positive peace) کے اشاریے انتہائی کمزور ہیں کیونکہ پاکستان میں پیس جرنلزم کا تصور یا تو انتہائی محدود ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہمارے میڈیا میں یک طرفہ منفی خبروں کی ہر وقت بھر مار رہتی ہے جن میں پیس جرنلزم اور ڈویلپمنٹ جرنلزم کے عوامل کا خیال نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا ہمارے روائیتی میڈیا پر اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اور اب نیو میڈیا یا سوشل میڈیا عوامی زندگی (public sphere) میں مقبول ہورہا ہے۔ہمارے صحافیوں، اینکرپرسنز، پورٹرزاور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیس جرنلزم کے فلسفے اور تصور سے روشناس ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ قانون ساز اسمبلی، انتظامیہ اور عدلیہ کے بعد میڈیا ریاست کاچوتھا ستون ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی ادارے و تنظیمیں، این جی اوز اور منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ ہمارے صحافی بھائیوں کو پیس جرنلزم کی تربیت دیں تاکہ ہمارے انفرادی رویوں، اداروں اور ہماری معاشرتی ساخت میں مثبت روایا ت اور اقدار کو فروغ مل سکے۔(مسرور احمد)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں