تحریر: نصرت جاوید۔۔
کرکٹ سے دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود میں ہفتے کی دوپہر اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ بڑی سکرین والے ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا۔ بھارت کے شہر احمد آباد میں پاکستان اور بھارت کا میچ ہونا تھا۔یہ شہر بھارت کے صوبے گجرات کا مرکز ہے۔نریندر مودی اس صوبے کا کئی برسوں تک وزیر اعلیٰ رہا۔اپنے اقتدار کے دوران اس نے دریافت کیا کہ پورے بھارت میں مقبول ہونا ہے تو ہندوانتہاپسندی کو ڈھٹائی سے اختیار کرنا ہوگا۔ مذ ہبی انتہاپسندی کو اگرچہ ملک کو ’دہشت گردی‘ سے محفوظ رکھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا سبب بتاتے ہوئے متوسط طبقے کی دنیاوی خواہشات کی تشفی کا وسیلہ بھی ثابت کرنا ہوگا۔
ہفتے کے دن جس سٹیڈیم میں پاک-بھارت میچ ہورہا تھا اسے نریندرمودی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ سٹیڈیم ہے جو ایک لاکھ 30ہزار کے قریب تماشائیوں کو کھپانے کی گنجائش رکھتا ہے۔کرکٹ سے نسبتاً اجنبی ہوتے ہوئے بھی مجھے اس امرکا بخوبی احساس تھا کہ بھارت کے مقابلے میں ہماری ٹیم کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ بھارت کی ٹیم میں پانچ کے قریب ایسے کھلاڑی ہیں جو کرکٹ کی دنیا میں معروف اور سٹار شمار ہوتے ہیں۔’ہوم گراﺅنڈ‘ پر کھیلتے ہوئے یہ کھلاڑی نفسیاتی اعتبار سے خود کو میچ پر کامل گرفت کا حامل تصور کریں گے۔ بھارتی ٹیم کو ٹھوس بنیادوں پر جو نفسیاتی برتری میسر تھی اسے ذہن میںرکھتے ہوئے بھی تاہم میں سادہ لوح اس امید میں مبتلا ہوگیا کہ ہمارے لڑکے اگریہ میچ جیتتے ہوئے نظر نہ بھی آئے تو کئی مواقع پر میچ کو ’پھنسا‘ ہوا دکھادیں گے ۔ ایسے مراحل میں متعصب اور مغرور دِکھتے تماشائیوں سے کھچاکھچ بھرے سٹیڈیم میں ابھرا ’سسپنس‘ ہم پاکستانیوں کی فخریہ تسکین کا سبب ہوگا ۔
میچ کے ابتدائی مراحل میں ہمارے لڑکے مذکورہ توقعات پر اترتے نظر آئے۔ تیسرے بلے باز کے آﺅٹ ہوتے ہی مگر معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ 30اوور ختم ہوئے تو میں مایوس ہوکراپنے کمرے میں منہ لپیٹ کر سونے کو چلا گیا۔ رات سونے سے قبل تازہ ترین کے لیے سوشل میڈیا دیکھا تو وہاں ہماری ٹیم کو نہایت حقارت سے برابھلا کہا جارہا تھا۔ ان کی ملامت سے میں ا داس ہوگیا۔اتوار کی صبح اٹھ کر لکھے اس کالم کے ذریعے اصرار کررہا ہوں کہ کرکٹ ٹیم ’بنائی‘ جاتی ہے ۔ازخود پاٹے خان نہیں بن جاتی۔
قیام پاکستان کے فوری بعد اگر ہمیں کاردار جیسے کپتان اور منیجر میسر نہ ہوتے تو شاید فضل محمود جیسے کھلاڑ ی بھی دریافت نہ ہوتے جنھوں نے اوول کے گراﺅنڈ میں برطانیہ کو تھلے لگادیا تھا۔ انگریز کی غلامی سے آزاد ہونے کے چند ہی ماہ بعد اس میچ نے ہماری قوم کو خود پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کیا۔ کرکٹ سے تھوڑی شناسائی مجھے 1970ءکی دہائی کے دوران ہوئی۔ ایئرمارشل نور خان ان دنوں ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔ 1985ءکے انتخابات کی بدولت وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو بطور سیاسی رپورٹر میں ان کے کافی قریب آگیا ۔ ان کے ساتھ گزارے کئی گھنٹوں کے دوران سنے بے شمار واقعات کی بدولت ہی میں اس دعویٰ کو دہرارہا ہوں کہ ٹیم بنائی جاتی ہے۔اس کے اصل ’قائد‘ اور ’خالق‘ گراﺅنڈ میں موجود نہیں ہوتے۔وہ کرکٹ کنٹرول بورڈ میں نورخان صاحب کی طرح براجمان رہتے ہیں اور نہایت لگن سے ایسے ہنرمند دریافت کرتے ہیں جو فطری صلاحیتوں سے مالا مال نوجوانوں کو تربیت کے کٹھن مراحل سے گزارتے ہوئے ’سٹار‘ بنادیتے ہیں۔
1970ءکی دہائی تک کرکٹ برطانوی اشرافیہ سے مختص کھیل شمار ہوتا تھا۔ یورپ اور امریکہ میں لیکن کبھی مقبول نہ ہوپایا۔وہاں کے عوام یہ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ یہ کیسا ’کھیل‘ ہے جس میں پانچ روز کے ’مقابلے‘ کے اختتام پر بھی کوئی فریق جیت یا ہار کا سامنا نہیں کرتا۔ میچ ’برابر‘ ٹھہرادیا جاتا ہے۔برطانیہ کے زیر نگین ممالک میں البتہ یہ کھیل وہاں کی دیسی اشرافیہ کی بدولت عوام میں بھی مقبول ہونا شروع ہوگیا۔ سٹیڈیم سے دور رہتے ہوئے بھی اس کھیل سے دلچسپی رکھنے والے ریڈیو پر ہوئی کمنٹری کے ذریعے اہم ٹیموں کے درمیان ہوئے میچ کے سنسنی خیز مراحل سے آگاہ رہتے۔
ٹیلی وژن کے فروغ نے مگر کرکٹ کے کھیل کو بھی ’کماﺅپوت‘ یا ’کمرشل‘ بن جانے کو مجبور کیا۔پانچ دنوں تک پھیلا ٹیسٹ میچ مگرڈرامائی مراحل فراہم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ٹیموں کے مابین ہوئے میچ کو فیصلہ کن بنانے کے لیے لہٰذا ’ون ڈے میچوں‘ کا تصور متعارف ہوا۔ بات چل نکلی تو کہانی T-20تک آپہنچی جہاں میدان میں اتری ٹیم ہر صورت جیت کے حصول میں مبتلا نظر آتی ہے۔ کرکٹ کے بارے میں اپنی جہالت کے باوجود میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہماری کرکٹ ٹیم کو دیگر وجوہات کے علاوہ بنیادی طورپر T-20کے فارمیٹ نے تباہ کیا ہے۔ T-20کے ا صولوں کے مطابق تیار ہوئی ٹیم میں منتظمین ایسے نوجوان کھلاڑیوں کو بے تابی سے تلاش کرنا شروع ہوگئے جو بنیادی طورپر بلے باز نہیں بلکہ باﺅلر ہوں۔میچ کا آغاز ہونے کے بعد ٹاس جیت کر مخالف ٹیم بیٹنگ کا فیصلہ کرے تو یہ باﺅلر ابتدائی 5یا 6اوورز میں اس کے سٹار بلے باز کو پویلین واپس بھیج دے۔جواہداف طے ہوئے انھوں نے نفسیاتی طورپر عمران خان جیسے اساطیری فاسٹ باﺅلروں کی تلاش وتربیت ہی کرکٹ بورڈ پر حاوی منتظمین کی اولین ترجیح بنادی۔
چند برس تک اپنا ’جلوہ‘ دکھانے کے بعد شاہین آفریدی یا حارث رﺅف جیسے فاسٹ باﺅلر یقینا سٹار بن جاتے ہیں۔ان کی صلاحیتوں کو مگر منتظمین گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم کا فطری انداز میں رچابسا عنصر بنانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔فقط فاسٹ باﺅلر پر انحصار کی عادت ہی نے بتدریج ہمیں یہ حقیقت فراموش کرنے کی عادت ڈالی کہ کرکٹ کا میچ جینے کے لیے خواہ وہ T-20ہی کیوں نہ ہو آپ کو 11کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم میں کم از کم 5سے 6ماہر بلے باز بھی درکار ہوتے ہیں۔ ہم ایسے بلے باز تیا ر نہیں کرپائے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی نفسیاتی مسائل بھی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ میچ شروع ہونے کے چند ہی گیندوں کے بعد اگراوپنر اور اس کے بعد تیسرے نمبر پر آیا کھلاڑی بھی آﺅٹ ہوجائے تو باقی رہ گئے کھلاڑی میچ’سنبھال‘ نہیں پاتے۔یکدم ’ڈھیر ہوجاتے ہیں‘۔بھارت کے ساتھ احمد آباد میں میچ کھیلتے ہوئے پاکستان کے لڑکوں نے ان تمام خامیوں کو ہماری اجتماعی شرمندگی اور غصے کے لیے بے نقاب کردیا ہے۔میں اگرچہ اپنی شرمندگی اور مایوسی کا میدان میں اتری ٹیم کے کھلاڑیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ان کے ڈھیر ہوجانے کا بنیادی سبب پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ ہے۔اس کے پھنے خان بنے اہم عہدے داروں خاص طورپر ٹیم منتخب کرنے اور انھیں تربیت دینے وا لوں کو اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے گھرجانا ہوگا۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔