خصوصی رپورٹ۔۔
’پے پال‘ ایک امریکی کمپنی ہے جو عالمی سطح پر ڈیجیٹل پے منٹ سروسز مہیا کرتی ہے۔ پاکستانی حکومتوں کی کوشش کی باوجود یہ کمپنی ہمارے یہاں اپنی سروسز شروع کرنے پر آمادہ نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز اور انٹرنیٹ سے کسی بھی طرح کی آمدنی کمانے والے لوگ کافی مشکلات کا شکار ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ یہ کمپنی پاکستان میں اپنے آپریشنز شروع کرنے سے گریزاں ہے؟ ویب سائٹ’پروپاکستانی‘ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی میٹنگ میں سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پے پال تب تک پاکستان نہیں آئے گی جب تک اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی نہیں کی جاتی۔رپورٹ کے مطابق پے پال کے پاکستان نہ آنے کا دوسرا بڑا سبب منی لانڈرنگ کے متعلق کمپنی کی ’صفر عدم برداشت‘ کی پالیسی ہے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان کا متعلق بین الاقوامی سطح پر جو تاثر پایا جاتا ہے، وہ بھی پے پال کو پاکستان آنے سے روکتا ہے۔ پاکستان اب بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق کسی بھی ملک میں کریڈٹ کارڈز ڈیجیٹل پے منٹ ایکوسسٹم کا محرک ہوتے ہیں اور پے پال پوائنٹ آف سیل(پی او ایس) اور کریڈٹ کارڈز سے متعلق دیگر پہلوﺅں کو دیکھتی ہے اور پاکستان میں اس حوالے سے صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ کسی بھی عالمی کمپنی کو پاکستان میں کام کرنے کے لیے 20لاکھ ڈالر لائسنس فیس ادا کرنی ہوتی ہے، جو کہ پے پال جیسی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے جو فی ٹرانزیکشن 2سے 3فیصد کماتی ہیں۔اس کے علاوہ ڈیجیٹل منی ٹرانسفر فرمز کے اکاﺅنٹس میں رقم رکھنے پر اور دیگر کئی حوالوں سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کئی طرح کی قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ ایک یہ وجہ بھی ہے کہ پے پال اور دیگر ایسی فرمز پاکستان آنے سے ہچکچاتی ہیں۔(خصوصی رپورٹ)