تحریر: سعید جان بلوچ
ہندوستان کی ریاست پٹیالیہ سے ہجرت کر کے آنے والے راجپوت گھرانے سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی ، سندھی زبان کے سب سے بڑے اخبار کاوش کے کراچی میں بیورو چیف مشتاق سہیل کی پیدائش ضلع نواب شاہ میں ہوئی۔ اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے انہوں نے حیدرآباد کا رخ کیا ۔سندھ یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی جہاں کراچی کے ایک اور نامور صحافی رفیق شیخ بھی ان کے کلاس فیلو تھے۔ماسٹرز کرنے کے بعد حیدر آباد سے شائع ہونے والے سندھ نیوز،سندھ آبزرور، سفیر اور خادم وطن میں کام کیا اور 1986 میں کراچی منتقل ہو گئے ۔کراچی میں ان کا پہلا اخبار صداقت تھا جس میں نیوز ایڈیٹر معروف صحافی صفدر بھائی تھے۔1991 میں وہ روزنامہ کاوش (جو اب سندھ کا سب سے بڑا اخبار تصور کیا جاتا ہے) کے بیوروچیف مقرر ہوئے اور آج تک اس اخبار سے وابستہ ہیں۔ مشتاق سہیل پہلے وکیل اور پھر ٹیچر بننا چاہتے تھے اس کے لیے انہوں نے بی ایڈ بھی کرلیا تھالیکن قسمت نے ان کو صحافت کے میدان کی طرف دھکیل دیا۔
مشتاق سہیل مادری زبان سندھی نہ ہونے کے باوجود سندھی کے سب سے بڑے اخبار کے بیورو چیف ہیں اور ان کا یہ سفرتادم تحریر جاری ہے ۔سادہ مگر پراسرار مسکراہٹ ان کی شخصیت کو مزید نمایاں کرتی ہے ۔ ان کی اور میری دوستی کا سفر گزشتہ 15برس سے جاری ہے ۔وہ مشہور رومانوی داستان سسی پنوں کے مرکزی کردار پنوں کی سندھ کی بیٹی کے ساتھ بے وفائی کومیرے خلاف ہمیشہ جوابی حملے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔وہ مجھے جب بھی ملتا ہے ، کہتا ہے کہ چھوڑو یار بلوچ بے وفا ہوتے ہیں ۔ میں نے بھمبھور میں سسی کے گھر کے سامنے جا کر اس بات کی معافی مانگی تھی کہ اگر کیچ تربت کے شہزادے پنوں نے اس سے بے وفائی کی ہے تو میں اس پر معافی مانگتا ہوں ۔تاریخ کے مطابق پنوں کو اس کے بھائی زبردستی لے کر گئے تھے ۔مشتاق سہیل یہ بات ماننے کو تیار نہیں بلکہ وہ اس کا ذمہ دار مجھے ہی سمجھتا ہے ۔
مشتاق سہیل کی شرافت اور ایمانداری کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ وہ ایک ذھین اور باشعورصحافی ہیں ۔ راجپوت ہونے کے باوجود انہوں نے خود کو محنت اور لگن کے ساتھ مستند صحافی اور سندھی ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔پیشہ وارانہ صحافی کیریئر میں وہ متعدد غیر ملکی دورے کر چکے ہیں ۔وہ سابق پاکستانی صدر و ا ٓرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دورے کی کوریج کیلئے بھارت جانے والے وفد میں بھی شامل تھے جہاں انہوں نے آگرہ سربراہی مذاکرات کی کوریج بھی کی ۔وہ ترکی ،متحدہ عرب امارا ت اور چین کے دورے کرنے والے حکومتی وفود کے ہمراہ جانے والوں میں بھی شامل رہے ہیں جبکہ انہوں نے بھارت جاکر محبت کی یادگار تاج محل کو بھی دیکھا اور اپنی لازوال محبت کا یقین دہانی کرائی ہے لیکن میں یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ یقین دہانی کس کو کرائی ہے۔
مشتاق سہیل اپنے ذاتی زندگی میں انتہائی انصاف پسند شخص ہیں ۔ اس کو ان کی سادگی کہیں یا انصاف پسندی ،ان کو اللہ رب العزت نے جب حج کا موقع دیا تو انہوں نے اپنی دونوں بیگمات کو ایک ساتھ حج پر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ جب اس کا ذکر انہوں نے مجھ سے کیا تو میں نے کہا کہ یارنہ کرو، حج تو سکون سے کرو۔کہنے لگا کہ اگر ایک ساتھ لے کر نہ گیا تو بھی سکون نہیں ملے گا ، بہتر ہے کہ دونوں کے ساتھ جایا جائے۔وہ جب سعودی عرب کے جدہ ایئرپورٹ پر پہنچے تو امیگریشن حکام بھی ان کی انصاف پسندی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔وہ جب بھی عمرے پر جاتے ہیں تو دونوں بیگمات ان کے ساتھ ہوتی ہیں ۔حج اور عمرے کے بعد مشتاق سہیل صوم و صلواة کے پابند ہو گئے ہیں تاہم ان کی حس مزاح اب بھی برقرار ہے اور وہ بڑی خاموشی سے اپنے جملوں سے جوابی وار کر دیتے ہیں ۔
مشتاق سہیل اگرچہ 1986 میں ہی کراچی منتقل ہو گئے تھے تاہم حیدر آباد سے ان کا تعلق آج بھی برقرار ہے اور ان کی ایک فیملی حیدر آباد میں ہی ہے اور وہ ہر ہفتے وہاں جاتے رہتے ہیں ۔اگر حیدر آباد میں انہیں ہماری یاد آجائے تو وہ کیک بھی لے آتے ہیں تاہم وہ بمبئی بیکری کا کیک نہیں ہوتا ۔ان کا ایک ہی بیٹا ہے جو حیدر آباد میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہے یہ نوکری اس نے پبلک کمیشن کا امتحان پاس کرکے حاصل کی ہے اور وہ ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں تعینات ہے۔4 میں سے2 بیٹیا ں اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے گھروں کی ہو گئی ہیں جب کہ باقی 2زیر تعلیم ہیں ۔دونوں بیگمات انتہائی سلیقہ مند ہیں ۔ایک نے ان کو کراچی میں سنبھالا ہوا ہے وہ جب بھی کراچی پریس کلب میں آتی ہیں تو مشتاق سہیل میری ملاقات ضرور کراتا ہے اور سعودی عرب میں مقیم میرے عزیز حاجی شریف بلوچ کا بھی ذکرکرتا ہے کہ وہ کس طرح ان کا خیال رکھتا ہے ۔جبکہ ان کی بڑی بیگم حیدرآباد میں رہائش پذیر ہیں ۔
مشتاق سہیل نے طویل جدوجہد کے بعد کراچی کے صحافتی حلقوں میں اپنا جداگانہ مقام بنایا ہے ۔ وہ دوستوں کے دوست ہیں ۔ ہمیشہ فون کرکے خبر گیری کرتے رہتے ہیں ۔وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ یار دفتر آو ، مل کر گپ شپ کرتے ہیں۔ہم وعدہ کر کے نہیں جاتے ۔ لہذا وہ جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ چھوڑ یار ، آخر بلوچ ہو نہ بے وفائی کرتے ہو۔مشتاق سہیل کو اللہ پاک نے بے پناہ عزت دی ہے ۔ ہم ان کی عزت اور وقار میں مزید اضافے کیلئے دعا گو ہیں اور اس بات کایقین دلاتے ہیں کہ پنوں نے سسی کے ساتھ جو کیا اس کا ذمہ دار وہ خود ہے ۔ ہم آپ کے وفادار دوستو ں میں شامل ہیں ۔(سعید جان بلوچ)۔۔