تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔
سنا تھا، پر کبھی دیکھا نہیں تھا کہ خدا پتھر میں بھی کیڑے کو رزق دیتا ہے۔لیکن اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔اگر آپ نے نہیں دیکھا توفوراً یوٹیوب کھولیں اور غور کریں کہ اللہ کی مہربانی سے کیسے کیسے کیڑوں اور لاروؤں کو رزق مل رہا ہے۔اِن لوگوں نے آج کل یوٹیوب چینلز بنا رکھے ہیں جہاں اُن کی اوٹ پٹانگ ویڈیوز کو لاکھوں کی تعداد میں دیکھا جاتاہے ، نتیجے میں اِن کے چینلز کو اشتہارات ملتے ہیں جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ یوٹیوب کی طرف سے اِنہیں ڈالروں میں ادا کیا جاتا ہے جس کے بعدیہ یو ٹیوبرز مزید مضحکہ خیز ویڈیوز بنانے میں جُت جاتے ہیں۔اِن یو ٹیوبرزکے رزق کا زیادہ ترذریعہ جنسی موضوعات سے متعلق ویڈیوز ہیں یا پھرجھوٹی خبروں کی بنیاد پر سیاسی تجزیوں والے وی لاگ ۔اِس کے علاوہ مذہبی موضوعات کو چٹ پٹا عنوان دے کر بھی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور کچھ ’فیملی‘ چینل ایسےبھی ہیں جن کا اگر بس چلے تو اپنی سہاگ رات کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کردیں ۔یوٹیوب دیکھتے ہوئے یہ ویڈیوز عجیب و غریب عنوانات کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں اور عام آدمی انہیں ’کلک‘ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔چلیں کوئی بات نہیں ، جس کا رزق جہاں لکھا ہےوہ وہیں سے روزی کما رہا ہے ، مسئلہ صرف اُن یو ٹیوبرز کا ہے جواپنی ویڈیوز کے ذریعےجھوٹ اور جہالت تو پھیلا ہی رہے ہیں مگر ساتھ ہی قوم کےخود ساختہ ہیرو اور نجات دہندہ بننے کے دعوی دار بھی ہیں۔اِن میں سب سے زیادہ خطرناک وہ ویڈیوز ہیں جن میں یہ لوگ کامِل یقین اور اعتماد کے ساتھ اپنا پُر فریب بیانیہ یوں نشر کرتے ہیں جیسے اُنکے پاس الہامی سچائی ہو ،اور پھر اُسے مزید ذائقے دار بنانے کیلئے مہا حب الوطنی اور مذہب کا تڑکہ لگا دیتے ہیں تاکہ اُن کے گمراہ کُن اعداد و شمار ، جھوٹی روایات اور کم علمی پر پردہ پڑا رہے اور کوئی انہیں بے نقاب کرنےکی ہمت نہ کرے۔لیکن ہمیں ہے حکم ِ اذاں، سو ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ایسے لوگوں کی گفتگو چونکہ خاصی لچھے دار ہوتی ہے اِس لیے عام آدمی بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے، تاہم اگر ہم تھوڑی سی گہرائی میں جائیں تو اِن پاپولسٹ یو ٹیوبرز کا پول آسانی سے کھول سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اِن لوگوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ایسے دعوے کرتے ہیں جن کی پڑتال ممکن نہیں ہوتی۔انگریزی میں اسے Falsification Principleکہتے ہیں، آنجہانی کارل پوپر اِس قانون کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی اصول پرکھا ہی نہ جا سکے تو اسے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح غیر منطقی دعوے کرنے والے عموماً قصے کہانیوں اور ذاتی واقعات کا حوالہ دے کر انہیں مستند بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،یہ لوگ اِس قدر اعتماد کے ساتھ سچ اور جھوٹ کا ملغوبہ بناتے ہیں کہ عام آدمی کیلئے فرق کرنا ممکن نہیں رہتا۔سوشل میڈیا کی ’فالوؤنگ‘ اِس ضمن میں سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے،بندہ سوچتا ہے کہ جسے ہزاروں لاکھوں لوگ بدھی مان سمجھتے ہیں وہ غلط کیسے ہوسکتا ہے۔یہ یوٹیوبرز ایک اور تکنیک کا استعمال بھی اکثر بروئے کار لاتے ہیں اور وہ ہے سائنسی اصطلاحات کا استعمال۔یہ لوگ خود کو بے حد منطقی اور سائنسی سوچ کا حامل دانشور بنا کر پیش کرتے ہیں ،ایسا کرتے وقت وہ اپنی باتوں میں سائنسی تراکیب اور مغربی سائنسدانوں کی تحقیق کے حوالے دیتے ہیں تاکہ سننے والے کو یہ نہ لگے کہ بولنے والا سائنسی ذہن کا مالک نہیں۔اِس قسم کی گفتگو بے حد چالاکی سے کی جاتی ہے اور اِسے جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ اُن سائنسی حوالوں اور مقالاجات پر خود ایک نظر ڈال لے، اِن کا پول دو منٹ میں کھُل جائے گا۔یہ لوگ محض سائنسی لفاظی کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، حقیقت میں اِن کی سائنسی سوجھ بوجھ بے حد سطحی نوعیت کی ہوتی ہے ، انہوں نے فقط چند سائنسی اصطلاحات اعتماد کے ساتھ رٹی ہوتی ہیں تاکہ اپنی بات میں وزن پیدا کیا جا سکے۔مستند سائنسی تھیوریوں کو بھی یہ لوگ نہایت اطمینان سے رد کردیتے ہیں اور اِس ضمن میں اتنا تردد بھی گوارا نہیں کرتے کہ اپنی تھیوری کو کسی جریدے میں پیش کریں تاکہ اُسکی سنجیدہ سائنسی پڑتال کی جاسکے ، لیکن دوسری طرف عام لوگوں کے سامنے اپنے یو ٹیوب چینل پر بڑی بڑی سائنسی تھیوریوں کے نقائص ایسے بیان کرتے ہیں جیسے وہ عہد حاضر کے آئن سٹائن ہوں اورہم عصر سائنس دانوں نے اُنکی تحقیق کا Peer reviewکر رکھا ہو ۔اِنکی جعلسازی کو پکڑنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اِن کے دعوؤں کو پیش کردہ ثبوتوں کی روشنی میں پرکھا جائے۔عموماً یہ لوگ کائنات،مذہب اور فلسفے سے متعلق پیچیدہ گتھیوں کے معاملے میں بلند بانگ دعوے کرتے ہیں مگر اُس سطح کا ثبوت نہیں پیش کرپاتے جس سطح کا دعویٰ ہوتا ہے ۔ یاجوج ماجوج کی لوکیشن کیا ہے، بگ بینگ سے پہلے کیا تھا، دجال کی آمد پر کیا منظر ہوگا…انہیں سب معلوم ہے ،اورثبوت کے طور پر محض اِن کا بیان کافی ہے!اور اگر کوئی اِس بیان کو چیلنج کرے تو جواب میں الہامی کتب کے حوالے دے کر غیر محسوس انداز میں یہ پیغام دیں گے کہ میری بات کو درست نہ ماننےکا مطلب دراصل (معاذ اللہ)قرآن و حدیث کا انکار کرنا ہے ۔ اور آخر میں جب اِن سے کچھ بھی بن نہ پڑے تو کہتےہیں کہ چونکہ اُن کا بیانیہ بین الاقوامی طاقتوں کو کھٹکتا ہے اِس لیے انہیں روکنے کی سازش کی جاتی ہے ،اُن کے مخالف نظریات رکھنے والوں کو فنڈنگ دی جاتی ہے اور یوں امت مسلمہ کی توانا آواز کو دبایا جاتا ہے۔ اِس اپیل سے عام مسلمان بیچارہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اِن کے دام میں آجاتا ہے۔ لاروؤں کی یوٹیوب کی ریٹنگ مزید بڑھ جاتی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ جو کامیابی پاکستان میں اِن یوٹیوبرز کو ملی ہے انہیں دیکھ کر میں رشک و حسد میں مبتلا ہوں، اور سوچتا ہوں کہ منطقی اور سائنسی سوچ کی دہائی دینے کا کیا فائدہ،نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے،لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر اِن باتوں سے کوئی ایک شخص بھی گمراہی سے بچ جائے تو میں سمجھوں گا محنت وصول ہو گئی۔میری بخشش کا اگر کوئی امکان ہے تو اسی صورت میں ہے،وگرنہ اپنے پلڑے میں تو کوئی ایسی نیکیاں بھی نہیں جن کے بل بوتے پر میں روزِ حشر دامن یزداں چاک کرنے کی ہمت کرسکوں۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔