تحریر: حسن کاظمی۔۔
لاہور میں منعقد ہونے والی ’ہم سٹائل ایورڈز‘ کی تقریب میں شریک شوبر ستاروں کے لباس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ جب کہ ہم نیٹ ورک کے شعبہ سپیشل پروجیکٹس کا کہنا ہے کہ ہم نیٹ ورک ذاتی پسند اور اظہار رائے کی آزادی پر مکمل یقین رکھتا ہے اور کسی بھی فرد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔
ہم نیٹ ورک کے شعبہ سپیشل پروجیکٹس اور ایونٹ کے نائب صدر خالد سورتی نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم اسٹائل ایوارڈز ایوارڈ شوایک ایسا ایوارڈ شو ہے جو بنیادی طور پر لوگوں کو اپنی ذاتی پسند کے مطابق انداز اپنانے اور مکمل اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے اس لیے اس میں شرکت کرنے والے افراد پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جاتی کیونکہ ایسا کرنا ان خاص طور پر ظاہری وضع قطع پر۔ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور وہ ایسا بالکل نہیں کرنا چاہتے۔ ’ ہم سٹائل ایوارڈز‘ کی تقریب کرونا کی وبا کے باعث رات 10 بجے تک پابندی کے باوجود دیر تک جاری رہی جب کہ تقریب میں جیمرز کی موجودگی بھی موضوع بحث بنی رہی۔ تین گھنٹے سے کچھ اوپر جاری رہنے والی اس تقریب کا باقاعدہ آغاز رات ساڑھے آٹھ بجے ہوا اور اختتام رات ساڑھے 11 بجے اور ہال خالی کرتے کرتے نصف شب ہو گئی۔
ہم ٹی وی کی جانب سے منعقد کیے جانے والے پانچویں ’ہم سٹائل ایوارڈز‘ کرونا (کورونا) وائرس کی عالمی وبا کے بعد منعقد ہونے والی پہلی باقاعدہ اور بڑی تقریب ہے جس نے شوبز دنیا پر لگے گرہن کو ہٹا کر روایتی چمک دمک واپس لانے میں پیش رفت کی ہے۔
سال 2020 میں کرونا کی وبا سے پیشتر پاکستان میں جو بڑی تقریب منعقد ہوئی تھی وہ ہم ٹی وی نیٹ ورک کے ہم ’ہم سٹائل ایوارڈز‘ ہی تھے اور اب تقریباً ڈیڑھ سال بعد جب پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے کیسز کم سطح پر ہیں، جو پہلی تقریب منعقد ہوئی ہے وہ ’ہم سٹائل ایوارڈز‘ ہی ہے۔
اگرچہ دعوت نامے پر واضع لکھا ہوا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے سخت پروٹوکول کے سبب تمام تقریبات رات 10 بجے ختم ہوجانی چاہییں اس لیے شام سات بجے سے پہلے گیٹ بند کردیے جائیں گے۔ مگر جب مہمان ہی دیر سے آئیں تو منتظمین کیا کریں؟ اب کروڑوں روپے لگ اکر کی جانے والی تقریب ادھوری چھوڑی بھی نہیں جاسکتی، تاہم گورنر پنجاب کی آخر تک موجودگی کی وجہ سے کوئی رخنہ نہیں پڑا۔
گذشتہ چار ’ہم سٹائل ایوارڈز‘ کراچی میں منعقد ہوئے تھے، شاید اسی لیے منتظمین نے اس مرتبہ لاہور کا انتخاب کیا۔ لاہور کی شدید گرمی نے شرکا کا بھرپور استقبال کیا اور سونے پے سہاگہ ائرکنڈیشننگ کا نظام کچھ تکنیکی مسائل کا شکار ہوا جس کی وجہ سے شرکا کچھ مشکل میں رہے۔ لیکن اس تکلیف کے باوجود تقریب کو چند اچھی پرفارمنس نے اور علی ظفر کی دلچسپ میزبانی نے چمکا دیا۔علی ظفر کو حال ہی میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا ہے اور یہ اس اعزاز کے بعد ان کی پہلی پرفارمنس تھی۔ انہوں نے ایک منجھے ہوئے اور انتہائی دلچسپ انداز میں شو کو آگے بڑھایا اور کئی جگہ واضع محسوس ہوا کہ وہ محض لکھا ہوا سکرپٹ نہیں پڑھ رہے بلکہ موقع کی مناسبت سے جملے چست کررہے ہیں۔تاہم ان کی ساتھ میزبان عروہ حسین اس ضمن میں ان کا مکمل طور پر ساتھ نہیں دے پائیں، نہ ان کا انداز برجستہ تھا اور نہ ہی دلچسپ۔ فارمیٹ یہ تھا کہ علی ظفر کو نسبتاً دیسی اور عروہ کو بہت گلیمرس اور سٹائلش انداز اپنانا ہے۔میرے خیال میں ’پنجاب نہیں جاؤنگی ‘ کی دردانہ یعنی عروہ کو اگر دیسی کردار دے دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
ہم سٹائل ایوارڈز میں اداکارہ علیزے شاہ کے لباس پر ہونے والی تنقید کے جواب میں ایک سٹائلسٹ کہتی ہیں کہ فیشن ڈیزائنر اور فیشن انڈسٹری صارفین کے ردعمل پر خود کو نہیں ڈھال سکتے۔
سٹائلسٹ امل قادری، جنہوں نے ایوارڈز کے لیے علیزے کو تیار کیا، کا کہنا ہے کہ ہر کسی کو اپنے لباس اور اس کے انداز سے اپنے آپ کو پیش کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کریں۔انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علیزے ایک افسانوی کردار کی طرح دکھنا چاہتی ہیں اور انہیں اس طرز پر تیار کیا گیا۔
امل قادری کا کہنا تھا: ’سوشل میڈیا کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، آپ لوگوں کو رائے دینے سے روک نہیں سکتے لیکن اس مطلب یہ ہرگز نہیں کہ فیشن ڈیزائنر اور فیشن انڈسٹری اپنے کام کو میڈیا یا لوگوں کے ردعمل کے مطابق ڈھالنے لگے کہ کسے کیا پہنا چاہیے اور کیا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لباس اور اس کا انداز اپنے آپ کو پیش کرنے کا اظہار ہے اور ہم سب ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اپنی اپنی پسند کے مطابق استعمال کریں۔میں کسی بھی مشہور شخصیت کو تیار کرنے سے پہلے اس سے سے معلوم کرتی ہوں کہ وہ خود کیا پسند کرتی ہیں اور وہ خود کیسا دکھنا چاہتی ہیں، پھر میں انہیں جدید تراش کے مطابق سنوارتی ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گلوکارہ رشم فیض بھٹا ڈرامائی انداز پسند کرتی ہیں اس لیے ہم نے خاص طور پر لباس تیار کروایا جس نے ان کی شوخ و چنچل شخصیت کو مزید نکھار دیا۔سی طرح اداکارہ ریشم ایک کلاسک انداز چاہتی تھیں جس کے لیے ہم نے پرانی تصویروں کو دیکھا اور ان کا لباس ڈیزائنر اقبال حسین نے تخلیق کیا۔امل قادری نے واضع کیا کہ ’انہوں نے جتنے بھی ستاروں کو تیاری میں مدد دی ان سب کا انداز ایک دوسرے سے جدا تھا کیونکہ وہ ان کی شخصیت اور پسند کے مطابق کام کرتی ہیں۔اگر اس سب کے بعد بھی ان شخصیات کو سوشل میڈیا پر اس طرح کی رائے ملتی ہے تو میں یہی کہوں گی کہ اعتراض کرنے والوں کو اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔(بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو)۔۔