(خصوصی رپورٹ)
معروف تجزیہ نگار و سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہاکہ جب ایک سوسائٹی زندہ ہوتی ہے تو اس کے اقدار زندہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دُنیا میں کبھی بھی ”دیو“ بغیر جدوجہدکے نہیں جاتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو آرٹس کونسل آف پاکستان میں ملکی سیاسی پس منظر میں لکھی جانے والی اپنی نئی کتاب ”دِی پارٹی اِز اُووَر“کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہاکہ ”دیو“ ابھی گیا نہیں ہے بلکہ ”دیو“ کو بھیجنے کے لئے شہزادی جمہوریت کو اپنے پرَ اور پھیلانے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ آج کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ صبح اُٹھیں اور تبدیلی آچکی ہو حالاں کہ کسی بھی معاشرے میں بغیر کسی جدوجہد کے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ جمہوریت کے پروانوں کو خود کو جلا کر جمہوریت کی شمع روشن رکھنی ہوگی۔ عمران خان کےلئے بھی مشکل وقت شروع ہوچکا ہے اب وہ جو کہیں گے اور جو وعدے کریں گے ان کو پورا کرنا بھی ان کا فرض ہوگا اور اب سے ان کا بھی احتساب ہوگا۔سینئر صحافی محمود شام نے کہاکہ ”دی پارٹی اِزاُووَر“کتاب کا صرف موضوع ہے مگر پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے۔انہوں نے سہیل وڑائچ کی تخلیقی تحریروں کے بارے میں کہاکہ یہ صحافت کی دُنیا میں ان اہم ترین صحافیوں میں شامل ہیں جن کا ادب و فن سے رشتہ ابھی تک برقرار ہے اور یہ کسی پیراشوٹر کی طرح صحافت کی دُنیا میں نمو دار نہیں ہوئے۔ سہیل وڑائچ باکمال علامتی کالم لکھتے ہیں۔ ان کے کالم میں منطق اور دلیل ہوتی ہے۔محمود شام نے کہاکہ آج کے زیادہ ٹاک شوز میں شور زیادہ مچایا جاتا ہے اور دلیلیں کم دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت زندہ ہے اور اس کی بقاءکے لئے ہم سب کو کام کرنا ہوگا۔اُردو ادب کی نامور شخصیت شکیل عادل زادہ نے کہاکہ سہیل وڑائچ ان کالم نگاروں میں سے ہیں جو نہایت شائستہ اُردو میں تحریریں لکھتے ہیں اور اگر چاہیں تو افسانے کی دُنیا میں بھی قدم رکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پیشن گوئیاں تو آجکل ہر کوئی کرتا ہے لیکن دلائل کے ساتھ اپنا جائزہ پیش کرنا سہیل وڑائچ کا کمال ہے۔ نامور سینئر صحافی مظہر عباس نے کہاکہ اگر آپ انتخابات کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صرف ایک پارٹی اوور نہیں ہوئی بلکہ بہت ساری پارٹیاں اوور ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک اچھا کالم نویس وہ ہوتا ہے جس کے کالم میں تجزیہ کے ساتھ ساتھ خبربھی ہو۔ انہوں نے سہیل وڑائچ کی صحافتی قابلیت کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ان کے انٹرویو اور تحریروں کا انداز ہمیشہ منفرد رہا ہے۔اگر پاکستان میں جمہوریت کو سمجھنا ہے تو سہیل وڑائچ کی کتاب ”دی پارٹی اِزاُووَر“کو ضرور پڑھیں۔صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہاکہ آج کے دور میں صحافت کا جنازہ نکالا جارہا ہے اور اس ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سوچا جانے لگا ہے کہ صحافی کا پڑھا لکھاہونا ضروری نہیں ہے۔ سینئر تجزیہ نگار امتیاز عالم نے کہاکہ سہیل وڑائچ بڑی مزیدار شخصیت ہیں آپ جس پر بھی تجزیہ کرتے ہیں وہ شش و پنج میں پڑجاتا ہے کہ اس کی تعریف کی گئی ہے یا شکایت۔انہوں نے کہاکہ سہیل وڑائچ بڑے جمہوریت پسند، ترقی پسند اور اصول پسند شخص ہیں اور ہر بات کو مناسب انداز میں پیش کرتے ہیں۔ صحافی و شاعر فاضل جمیلی نے کہاکہ سہیل وڑائچ نے صحافت کے ذریعے اُردو زبان کی آبیاری کی ہے اور ان کی تحریروں میں شگفتگی اور چاشنی نظر آتی ہے، ان کے کالم نہ صرف علم کی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ قارئین مزید مطالعے کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ سہیل وڑائچ کی پچھلی کتابوں ”غدار کون“ اور ”قاتل کن“ پر بھی تجزیہ کیااور اس کے پس منظرمیں سہیل وڑائچ کی نئی کتاب ”دی پارٹی اِزاُووَر“پر تجزیہ کیا۔ سندھ کے معروف صحافی ایوب شیخ نے کہاکہ ہمارے ہاں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جوبڑی بات کو درگزر کرکے چھوٹی بات پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پرنس نامی انگریزی کہانی کو ملکی سیاسی پس منظر میں بیان کیااور حالات کاجائزہ پیش کیا۔ تقریب کے اختتام میں مرکز نگاہ سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے مہمانانِ گرامی کو اپنی کتاب ”دی پارٹی اِزاُووَر“پیش کی جبکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے گلدستہ پیش کیا۔اس موقع پر نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے انجام دیئے۔کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران شہر بھر کی دیگر صحافی اور ادبی شخصیات بھی موقع پر موجود تھیں۔