تحریر: اسد وقاص
میں ایک پکا سچا مسلمان ہوں، ہاتھ میں تسبیح، اونچی شلوار، سر پے امامہ اور چہرہ داڑھی سے منورہے۔نماز تکبیر اولیٰ سے ادا کرتا ہوں، سنت اور نوافل کا پابند ہوں، تہجد کا لمبا قیام میری عادت ہے، میں دعاؤں میں التجائیں کرتا ہوں ، روتا ہوں، تڑپتا ہوں ، روزے فرضی تو دور نفلی بھی نہیں چھوڑتا، عمرہ ہر سال کرنے جاتا ہوں دسیوں مرتبہ حج کا شرف حاصل کرچکا ہوں۔ ہر جمعرات محفل سماع کا اہتمام میرے گھر پر ہوتا ہے۔ مسجد پر کھڑے سائل کو بھر بھر کے نوازتا ہوں، علماء کرام کی جیبیں بھی گرم رکھتا ہوں تاکہ مطلب کا جمعہ سنا جاسکے۔ تبلیغ دین میں مصروف افرا د کی مدد کرنا میرا معمول ہے۔مگر کیا قارئین آپ کو معلوم ہے مجھ سمیت اکثر مسلمان ایسا کیوں کرتے ہیں؟اس لئے تاکہ ہمارے عیب چھپے رہیں اور ہم محلے اور معاشرے میں کامیاب اور باعزت افراد کے طور پر پکارے جائیں جی ہاں! قارئین، ہمارا بزنس لاکھوں کا ہے، ٹیکس سے ہم بچتے ہیں، ہنڈی اور کیش پر کام کرتے ہیں اے مال پر بی اور بی کی قیمت میں بھولے صارف کو سی مال تھما دیتے ہیں۔ ملاوٹ، سامان میں نہ ہو تو ہمیں ذہنی سکون نہیں ملتا۔ دال میں پتھر، ہلدی میں ریتی ، مرچی میں سرخ رنگ ملانا اور ایکسپائری مال پر نئی تاریخ لگا کر نئی قیمت پربیچنا ہمارے کاروباری ذہن کی عکاسی کرتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ کاروبار میں آنے والے نئے بچے ہمارے ہاتھ چومتے ہیں، پاؤں دھو کرپیتے ہیں۔ چھپ کر سخاوت کرنا ہمیں پسند نہیں اور کھلے عام کسی سائل کو نوازنے میں ہمیں تسکین ملتی ہیں کیونکہ اس سے ہمیں معاشرے میں شاباشی ملتی ہے۔ رات کو کام پر سے گھر لوٹتے ہوئے بچوں کیلئے ڈھیر سارا فروٹ خریدنا، روزمرہ کے حساب سے کھلا راشن پانی گھر میں جمع رکھنا اور کھلے سفید شاپروں میں کھانے پینے کی اشیاء جان بوجھ کر گھر لانا کہ برابر والا پڑوسی ہمارے حالات پر رشک کرسکےلیکن اپنے آپ کو پکاسچا مسلمان پکارنے والے جتلانے والے! کیا تو جانتا ہے؟ جس پڑوسی کو تو اپنا من و ٹن سازوسامان دکھاتے ہوئے گھر لے کر آتا ہے ، اس کے حالات کیسے ہیں ؟ کیا تیرا پڑوسی بھی تیری طرح خوشحال تو دور دو وقت کی روٹی بھی کھاتا ہے کہ نہیں؟ نہیں ناں! تو پھر ایک بات جان لو، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پڑوسیوں کے کافی زیادہ حقوق بتائیں اور اس کی شان اور فضیلت میں کئی احادیث بھی موجود ہیں؛
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھ کر خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی ہو گی۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب اٹھے کہ یا رسول اللہ! میرے کچھ غریب بھوکے پڑوسی ہیں یا یوں کہا وہ محتاج ہیں۔ اس لیے میں نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا البتہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بھی زیادہ مجھے پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔”
اس حدیث سے بات معلوم ہوتی ہے کہ؛ انصاری صحابی نے قربانی کے مسنون طریقے کو پڑوسیوں کی بھوک کی وجہ سے توڑا جس پر آپ علیہ السلام نے ناراضگی کا اظہار کیا نہ انھیں ڈانٹا بلکہ صحابی کو ایک سال کے بچے کی قربانی کی اجازت دے دی جو کہ قربانی میں جائز نہیں چونکہ معاملہ پڑوسی کے حقوق کا تھا اس لئے مجبوری میں آپ ﷺ نے قربانی کے جانور کی عمر میں رخصت عطا فرمادی۔
آپ ﷺ نے پڑوسی کو اپنے پڑوسی کی دیوار استعمال کرنے کی اجازت عطا فرمائی؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ قسم اللہ! اس کھونٹی کو تمہارے کندھوں کے درمیان گاڑ دوں گا۔
آپ ﷺ سے سوال کیا گیا؛
یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں، تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کا دروازہ تم سے قریب ہو۔“
ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا ویسے ہی ایک بڑا گناہ لیکن پڑوسی کی بیوی سے جس کا شوہر آپ کو اپنا بھائی سمجھتا ہو اس کی عورت سے بدفعلی کرنا گناہ عظیم ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛
” جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔”
اس کے برعکس آپ اور ہم پکے سچے مومنو کا معاملہ یہ ہے کہ؛ ہم اپنے پڑوسی کو گالم گلوچ کرتے ہیں؛ اپنے پڑوسی کو بہانے بہانے سے مالی اور جانی تکلیف پہنچاتے ہیں، بھوکے پڑوسی کے سامنے سے کھانوں سے بھرے بیگ لیکر اپنے گھروں میں داخل ہوتے ہیں، پڑوسی کو اپنی چیز استعمال کرنے نہیں دیتے ، اپنے پڑوسی کے دروازے کے آگے کچرا پھینکتے ہیں کیونکہ ہمارے ایمان کمزوز ہوچکے ہیں، ہم اللہ پاک اور قیامت پر اب ایمان نہیں رکھتے اگر رکھتے ہوتے تو پڑوسی کو حدیث کے تناظر میں تکلیف نہ پہنچاتے!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛
جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں باربار اس طرح وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کر دیں۔
قارئین آپ جانتے ہوں گے کہ وراثت میں شریک کسے ٹھہرایا جاتا ہے، اسے جو آپ کا خونی رشتے دار ہو اس لئے حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پڑوسی کی فضیلت سگے خون کے برابر ہے اس لئے ان کے دکھ سکھ میں کام آنا، انہیں مالی مدد فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا؛
واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون: یا رسول اللہ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔
آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے ( یا فرمایا : اپنے پڑوسی کے لیے بھی ) وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ ‘ ‘
ہم پکے سچے مسلمان اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمارا پڑوسی کیلئے ہر فعل حدیث کے برعکس ہوچکا ہے۔ ہم اپنے پڑوسی کو رات کا کھانا بھیجتے ہیں کیونکہ ہمیں تازہ کھانا پسند ہے، فروٹ وہ بھیجتے ہیں جو گلنا شروع ہوچکا ہو، کپڑے وہ دیتے ہیں جو پہن پہن کر بوسیدہ ہوچکے ہوں، جوتوں کی جوڑی جس کے تلوے گھس چکے ہوں اپنے پڑوسی کو تھما دیتے ہیں اور پھر پورے محلے میں جتلاتے پھرتے ہیں کہ وہ دیکھ وہ جو پاؤں میں پہنا ہے وہ میرے جوتے ہیں، وہ جو اس نے کپڑےپہن رکھے ہیں وہ میرے پرانے کپڑے ہیں۔ یوں اپنے غریب پڑوسی کی عزت کو نیلام کردیتے ہیں اس کو معاشرے میں ذلت پہنچاتے ہیں ، رسوا کرتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا؛
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نیکی ضائع نہ جائے تو اسے جتلاؤ مت اور نہ احسان کے بدلے میں احسان کی خواہش رکھو۔
مختصرا یہ کہ ہم حقیقتا میں پکے سچے مسلمان جب ہی بن سکتے ہیں، جب ہمارا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، مالی معاملات ، حقوق العباد ، عبادات اور صدقات زکوۃ اللہ اور اس کے حبیب محمد ﷺ کے تابع نہیں ہو جاتے۔ اپنی بات کا اختتام میں کچھ یوں کرنا چاہتا ہوں؛
گھر ہمارا پھونک کر کل اک پڑوسی اے عتیقؔ
دو گھڑی تو ہنس لیا پھر بعد میں رویا بہت(اسدوقاص)