تحریر: فواد رضا۔۔
جب میں پاکستان میں تھا، تو اس وقت حکومت ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولائز کرنے کی کوشش کررہی تھی، جس میں یوٹیوب نیوز چینل اچھی خاصی فیس تھی۔یوٹیوب پر موجود دس میں سے ساڑھے نو نیوز چینل دیکھ کر تو دل میں خیال آتا ہے کہ ان پر مکمل پابندی ہی لگادی جائے۔حکومتی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ہر ادارہ بے لگام ہوا پڑا ہے وہاں اکثریتی غیر تربیت یافتہ ماس کوم گریجویٹ تو باؤلے ہی ہوگئے ہیں۔جس کے ہاتھ میں مائیک ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ یہ مائیک کسی کے بھی منہ میں بلکہ ناک میں ڈال کر ننہ صرف یہ کہ سوال کرسکتا ہے بلکہ مرضی کا جواب نہ ملنے پر کسی کھڑوس اینکر کی طرح اس کی ایسی کی تیسی بھی کرسکتا ہے۔سب کے سب واٹس ایپ صحافی ہیں، ایک دن واٹس ایپ ڈاؤن ہوجائے تو کسی کے پاس کوئی خبر نہیں ہوتی۔
ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک صاحب کا خیال تھا کہ ایک مخصوص سڑک پر پھول فروش کرنے والی لڑکی اصل میں جسم فروش ہے، وہ انکے ہاتھ نہ آئی تو بھائی صاحب وہاں موجود رکشے والوں اور چرسیوں کا موقف لیتے پھررہے تھے، ساتھ ساتھ استغفراللہ اور لاحول کا ورد بھی جاری تھا۔ابھی کراچی میں نالے پر بنی عمارت میں دھماکا ہوا تو سب نے اپنی وال پر بریکنگ پوسٹ کردی کہ کراچی میں دھماکا، آپ نے تو لائیکس لینے میں جلدی کردی، کبھی سوچا ہے کہ آپ کی اس جلدی سے ملک کو کتنی دیر ہوجاتی ہے۔بعد میں آپ بتاتے ررہیں کہ دھماکا نالے پر بنی عمارت میں گیس جمع ہونے کے سبب ہوا، کون سنے گا، سب پہلی خبر سنتے ہیں۔
میڈیا انڈسٹری میں معاشی زوال اپنی جگہ لیکن اگر آپ ایماندار نہیں ہیں تو یہ جگہ آپ کی نہیں ہے، اب آپ اپنے گھر کے چولہے کی کہانی سنائیں گے کہ کیسے چلے تو بھائی جب صرف اخبارات ہوتے تھے، تب بھی ایوننگر ہوا کرتے تو جو آپ کی طرح مصالحہ ہی بیچتے تھے لیکن کوئی بھی شریف اور باضمیر صحافی زیادہ پیسوں کے لیے بھی انکا رخ نہیں کرتا تھا کہ خبر کی حرمت بھی کوئی شے ہے۔اچھا خاصا صحافت کارِ پیغمبری ہوا کرتا تھا، آپ سب نے، بلکہ ہم سب نے مل کر اسے لکی ایرانی سرکس بنادیا ہے۔
بس آخری بات یہ کہ بھائی پاکستان میں صحافی ہونے کا مطلب بدمعاش سمجھ لیا گیا ہے، آپ کو جو ناجائز اختیارات پہلے ہی استعمال کررہے ہیں مہذب دنیا میں اس کی کوئی توجیہہ نہیں ہے، یہاں برطانیہ میں بی بی سی سمیت کسی کی اجازت کے بغیر اس کی عکس بندی بھی نہیں کرسکتا کجا کہ اسے آن ائیر کر دے ، آپ ہیں کہ کیمرا ہاتھ میں لیے جوتوں سمیت اگلے کی آنکھوں میں گھس جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی بات پر بس تصدیقی مہر لگائے، اور نہ لگائے تو آپ کی بدتمیزی شروع ہوجاتی ہے۔آپ کو یو ٹیوب سے پیسے کمانے ہیں، تھوڑی محنت کریں، نیوز سے ہٹ کر کانٹنٹ پیدا کریں، اچھے پیسے کمائیں گے، ہاں یوٹیوب چینل کا مائیک دکھا کر بھتے لینے ہیں تو یہ اور بات ہے۔
سمجھانا میرا فرض تھا، یہی بات ہمیشہ پاکستان میں ہونے والے میڈیا سیشنز میں بھی ہمیشہ سمجھائی کہ بطور صحافی میڈیا اتھیکس آپ کو انگلیوں پر نہ صرف یاد ہونے چاہیے، بلکہ آپ کے کام پر نافذ العمل بھی۔ آج بھی بتارہا ہوں کہ اس کے لیے آپ کو زیادہ دقت کی ضرورت نہیں ہے، بس گوگل کرلیں تو بنیادی میڈیا اتھیکس آپ کے سامنے آجائیں گے اور آپ کے اندرر کے ہر کیڑے کا شافی علاج کردیں گے۔۔ (فواد رضا)۔۔