تحریر: آغا خالد۔۔
خواہشات کی غلامی میں انسان کس قدر جستجو کر سکتا ہے یہ کہانی اس کا بیین ثبوت ہے، ہمارے ایک صحافی ساتھی کی 90 کی دہائی سے کوشش تھی کہ اس کی شادی مشہور یا کسی مالدار خاتون سے ہو اس کے لیے وہ بڑی سنجیدگی سے مختلف ذرائع استعمال کرہا تھا اس دوران اس نے اپنے وقت کی بین الاقوامی سطح کی دو معروف خواتین کو بھی ایی میل کیں، ان کی ایی میل ڈھونڈنے میں اسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا چند ان مشکل نہیں وہ بھی 90 کی دہائی میں ان خوش قسمت خواتین کے نام ہیں لیڈی ڈائنا اور بھارت کی پریانکا گاندھی آخرالذکر سابق انڈیین وزرائے اعظم راجیو گاندھی کی بیٹی اور اندرا گاندھی کی پوتی ہیں اور دونوں خواتین شہرت اور دولت میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، جبکہ موصوف خود سیاہ فام نقوش کے افریقی، نقوش کچھ بہتر مگر کراچی کے تیسرے درجہ کے صحافی تھے اور مالی حالات بھی بہت ہی خستہ مگر اڑان خوب تر اور سب سے بڑھ کر خود اعتمادی ایسی کہ یقیں کیے بیٹھے تھے کہ میل کا جواب بھی آئے گا اور وہ بھی “ہاں” میں، لیڈی ڈائنا کا تو جواب نہ دارد البتہ پریانکا کا جواب بہت دلچسپ اور حیرت انگیز تھا، موصوف نے اپنی ای میل بھی دل چسپ پیرائے میں صحافیانہ انداز میں لکھی تھی،۔۔ آپ کی دادی (اندرا) اور والد پاکستان سے بہتر تعلقات کار کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے رہے ان کے خوابوں کو حقیقت میں اور ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے اس سنہری موقع کو آپ غنیمت جانتے ہوے میری شادی کی پیشکش کو قبول فرمائیں گی اس طرح ہمارے رشتہ کے بندھن میں ساری نفرتیں بہ جائیں گی اور دونوں ملک ایک اٹوٹ ازدواجی رشتہ میں جکڑے جائیں گے میرے مخلصانہ جذبات کی قدر کرتے دو قوموں کے مستقبل کے سدھار کی خاطر آپ میری پیشکش کو یقینا شرف قبولیت بخشیں گی، جس کا مختصر مگر جامع جواب پریانکا کی طرف سے آیا کہ۔۔۔آپ کے خلوص میں ڈوبے الفاظ سے متاثر ہوں آپ نے پیشکش میں تاخیر کردی میرا رشتہ گزشتہ برس طے ہوچکا، شکریہہمارے ساتھی کی شادی بالآخر اپنے جیسے عام گھرانے میں ہوئی آج وہ بیرون ملک اور ایک سے زائد بچوں کے باپ ہیں۔(آغا خالد)۔۔