pakistani sahafi kese soch rhe hein

“پاکستانی صحافی کیسے سوچ رہے ہیں”

تحریر: محمد ولید احمد، رپورٹر جیونیوز۔۔

صحافی سیاسی جماعتوں کا ماوتھ پیس کیوں بن گئے؟ صحافیوں کی یوٹیوب اور ٹوئیٹرپرجنگ کیوں ہے؟ پنجاب اور سندھ کے صحافی کیسے سوچتے ہیں؟ صحافی تحریک انصاف، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں تقسیم کیوں ہوگئے۔ ان سوالوں کا جواب جاننے کیلئے کچھ حقائق سمجھتے ہیں۔ شک نہیں پی ٹی آئی سوشل میڈیا پرچھائی ہوئی ہے، تحریک انصاف کی مدح سرائی پرمبنی وی لاگ ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں، جس ٹوئٹ میں عمران خان کی تعریف ہواس پر ہزاروں دل سُرخ ہوجاتے ہیں، اس اصول کوبھانپتے ہوئے “سمجھدار” صحافیوں نے تحریک انصاف کو”مائی لارڈ” تسلیم کرلیا، پاپولرجرنلزم اسی فنکاری کا نام ہے، شہرت جن صحافیوں کی خوراک ہے وہ پی ٹی آئی کا سامان بیچنے لگے، 65فیصد نوجوانوں کے ملک کی اکثریت عمران خان کی فین ہے، وجہ کرکٹ اور سوشل میڈیاکی پاورہے، تحریک انصاف اپنا پیغام جنگل میں آگ کی طرح پھیلانا جانتی ہے البتہ ایسے صحافی بھی ہیں جوحقیقتاً عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں، وہ صحافت کے اس بنیادی اصول کوفٹبال کی طرح پیر سے ٹھوکر مارتے ہیں کہ صحافی سیاسی جماعت کا کارکن نہیں ہوتا، نامور سیاسی شخصیات نے یہ افواہ دل و جان سے اُڑائی کہ دنیا میں غیر جانبداری کوئی چیز نہیں ہوتی، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا چاہئے، سوال یہ ہے کہ عمران خان کی ہربات صحیح اورنواز شریف کی ہر بات غلط کیسے ہوسکتی ہے، انسان خطا سے پاک نہیں ہوتا لیکن تحریک انصاف نے ایسا بیانیہ پروان چڑھایا کہ ان کیخلاف ہونے والی ہرتنقید ناجائزہے یہی وجہ ہے پی ٹی آئی کے ترجمان صحافی ہرگز عمران خان نادانی بیان کرنے کاحوصلہ نہیں رکھتے کیوں کہ یوٹیوب اور ٹوئیٹر پر ایک مخالف رائے ریٹنگ کاکھیل بگاڑ سکتی ہے، اور اُن کی جھولی میں گالیاں ڈال سکتی ہے اس لئے پی ٹی آئی کے محبوب صحافی عمران خان کے نظریاتی پودوں میں پانی ڈالتے ہیں، وہ کبھی کپتان کی شان میں گستاخی کاخطرہ مول نہیں لیتے۔ ریٹنگ کی دوڑ میں کچھ چینلز تحریک انصاف کی زبان بولتے ہیں اور پھر ان چینلزسے وابستہ صحافی بھی چاہتے نہ چاہتے پی ٹی آئی کواپنی آنکھ کا تارا بنا بیٹھتے ہیں کیوں کہ صحافی چینل پالیسی کے مطابق خبر دینے کاپابندہوتا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کی خبرروک لی جاتی ہے اس لئے صحافیوں نے خود کوچینلز کی پالیسی میں ڈھالنا سیکھ لیا ہے جہاں چینل کو دانا ڈالاجاتا ہےصحافی وہیں سے فصل کاٹتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ کچھ صحافی دیانتداری سے عمران خان کو فرشتہ سمجھتے ہیں انہوں نے نظریئے کیلئے نوکریاں قربان کیں، استعفے دیئے گھر چلے گئے، یوٹیوب چینل بنائے اور تحریک انصاف سے محبت پرمبنی گیت شروع کردیئے، صحافی پی ٹی آئی کے عشق میں جیل گئے، اٹھائے گئے، دھمکائے گئے، انہوں نے مال ہی نہیں جان بھی خطرے میں ڈالی۔ دوسری جانب نون لیگ کا جادو ہے، صحافیوں کو مُٹھی میں رکھنے کیلئے نوکریوں سے نوازہ گیا، اہم عہدوں کاقلم دان سونپا گیا۔ نون لیگ ہمنواصحافیوں کا “بہت خیال” رکھتی ہے، کچھ صحافی نوازشریف کو محسن سمجھنے ہیں اور وقفے وقفے سے اپنی وفادای ثابت کرتے رہتے ہیں، دوسری جانب ایک حقیقت یہ ہے کہ کچھ چینلز نون لیگ کا میڈیا سیل بن چکے ہیں، وہاں کے مزدور صحافیوں کیلئے ضروری ہے وہ چینل کی پالیسی کا تاج اپنے سرپررکھیں، نون لیگ کے ہمدرد چینلز ہم خیال صحافیوں کوحلوہ مانڈا فراہم کرتے ہیں۔ پنجاب کی دھرتی پر اصل معارکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کا ہے اسی سبب وہاں صحافی ان دوبڑی جماعتوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں صحافت بری طرح زخمی ہوچکی ہے کیوں کہ غیر جانبدار صحافی کسی چینل کی ضرورت نہیں رہا، ریموٹ لیجئے، چینل لگائیے، آپ کو اندازہ ہوجائےگا کہ کون ساچینل کس سیاسی جماعت کالاوڈاسپیکرہے، اس لئے صحافی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بے روزگار ہونے سے بہتر ہے بندہ جانبدار ہوکر سر جھکادے۔

سندھ کی صورتحال انتہائی دلچسپ ہے، جہاں نوے فیصد صحافت کراچی کے گرد گھومتی ہے۔ کچھ سیاسی تنظیموں پر لسانیت اورصوبے کے ٹھپے کا احساس ہوتا ہے، پیپلزپارٹی سندھ تک سُکڑ چکی ہے، صوبے کے صحافیوں کو جیب میں رکھنے کا خاص اہتمام کیاجاتا ہے، جیالے چھوٹے شہروں سے آنے والے صحافیوں کی “خدمت” کرتے ہیں اوربدلے میں صحافی بھی خدمت کا جواب خدمت سے دیتے ہیں۔  ایک ضمنی بات یاد آگئی، تجزیہ کار شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں مضافاتی علاقوں میں سیاسی قائدین پریس کانفرنس کےبعد صحافیوں کوسفری اخراجات اورچائے پانی کیلئے لفافے تقسیم کرتے ہیں ، کیا لفافہ پکڑتے صحافی مشکل سوال کرنے کا جگر یا تنقیدی خبر چھاپنے کی جرات کرسکتے ہیں، خیر واپس پیپلزپارٹی کی طرف آتے ہیں، صوبے میں زبان کی بنیاد پر ایک خاموش تقسیم ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں، پیپلزپارٹی کے حامی صحافی سمجھتے ہیں جیالوں کی بقاء سے ہی ان کا تحفظ ہے، اس لئے چند صحافی سندھ کی حکمران جماعت کا ہرفرمان بجالاتے ہیں، سندھ کے بعض صحافی اتنے حساس ہیں کہ انہیں دادو، مورو یا مٹھی شہرپرہونے والی تنقید ایک مخصوص قوم کی بے ادبی معلوم ہوتی ہے، سندھ کے کچھ معروف دانشور بھی کسی اندیکھے خوف میں مبتلا ہیں چنانچہ وہ بھی پیپلزپارٹی کیلئے “نرم گوشہ” رکھتے ہیں ان کا خیال ہے یہی سیاسی جماعت ان کی وارث ہے، صف اول کے سندھی چینلز بھی پیپلزپارٹی کو پیارے ہیں، یوں وہاں کام کرتے صحافیوں کی پہلی پسند بھی یہی جماعت ہے۔ سندھ میں ایسے صحافی بھی ہیں جو دل سے سمجھتے ہیں کہ یہی سیاسی قوت ملک کا نقشہ بدل سکتی ہے اس لئے وہ سندھ حکومت کی تعریفوں میں زمین اور آسمان ایک کردیتے ہیں لیکن سب ایک لڑی کے موتی ہرگز نہیں ہیں، سندھ کے کئی صحافی اور دانشور ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، وہ کبھی لسانی تعصب کا شکار نہیں ہوتے، ان میں حق اور سچ کہنے کا حوصلہ ہوتاہے، جہاں وزیروں اورمشیروں کے ساتھ تصویریں بنواکر فخر کرنے والے صحافی ہیں تو وہیں سندھ دھرتی کے ایسے باہمت صحافی بھی ہیں جنہوں نے سچ کی خاطر جان دے دی مگر جھوٹ سے سمجھوتا نہ کیا، ایسے صحافی جو تعصب کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیتے، ایسے صحافی جو لسانیت کی بنیاد پر تفریق اور تجزیہ نہیں کرتے، ایسے صحافی جو صحیح اورغلط میں لکیرکھینچناجانتے ہیں۔

سندھ کی سیاسی جماعت ایم کیوایم پر اردو بولنے والوں کا ٹھپہ ہے، وہاں “جئے مہاجر” کے نعرے عام ہیں، خود کومہاجرسمجھنےوالے صحافیوں کا خیال ہے متحدہ کی مضبوطی ان کےقدم جمائے رکھے گی، ایم کیوایم نے بھی چہیتے صحافیوں کی فہرست بنارکھی ہے، اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ متحدہ نے پندرہ بیس برس قبل من پسند صحافیوں کی نوکریاں پکی کروائیں، اس لئے وہ صحافی متحدہ پر “مہربانی” کرتے رہتے ہیں، چندنظریاتی صحافی سمجھتے ہیں مستحکم متحدہ ان کے “اپنوں” کیلئے ضروری ہے۔ البتہ اردوبولنے والے کچھ صحافیوں کے دل میں بانی متحدہ کیلئے آج بھی چھوٹا سا چراغ روشن ہے اور وہ منتظر ہیں کہ کب “ہیلو”کی آوازگونجے اورکب یہ مزید مضبوط ہوں۔

صحافیوں کا ایک مضبوط گروپ جماعت اسلامی کا ہمدرد ہے، تیس سال قبل یونیورسٹیوں سے پڑھ کر صحافت کامورچہ سنبھالنے والے صحافیوں کی وابستگی جمعیت سے رہی ہے، ان کی رگوں میں جماعت کی تربیت کا خون دوڑتا ہے، ایسے صحافی اخبارکےبعد ٹی وی چینلز کاحصہ بنے اور بڑے عہدوں تک پہنچے، یہ صحافی دیگر تنظیموں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کوبرتر سمجھتے ہیں،یہ نظریاتی صحافی جماعت اسلامی کاپیغام عبادت سمجھ کرعام کرتے ہیں جبکہ وہ صحافی جو اسلامی حکومت کے قیام یا اسلامی نظام کے خواہش مند ہیں اُنہیں بھی جماعت اسلامی کے روپ میں روشنی نظر آتی ہے، آپ باریک بینی سے دیکھیں تو احساس ہوگا مذہبی صحافی جماعت اسلامی کی تبلیغ کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ گزشتہ کچھ عرصے میں جماعت اسلامی کی میڈیا منیجمنٹ نے کروٹ لی ہے اب ان کا ہدف صرف مذہبی ذہن نہیں بلکہ غیر مذہبی صحافی بھی ہیں، طریقے کار کی تبدیلی کے سبب کئی لبرل اور سیکولر صحافی بھی جماعت اسلامی کے نازاٹھانے لگے ہیں، جماعت اسلامی یہ باور کرانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہے کہ وہ سیاست تک محدود ہے، جماعت کی جدوجہد پانی، بجلی، گیس، بنیادی حقوق اور ترقی کیلئے ہے، لبرل اور سیکولراس بیانیہ پر یقین کرنے لگے ہیں جماعت اسلامی میں لفظ “اسلامی” تو ہے مگر ان کی تحریک “سیاسی” ہے۔ دوسری طرف وہ صحافی جو نون لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ سے مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی “حل صرف جماعت اسلامی” کے نعرے پریقین کررہے ہیں۔ صحافی کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھے مگراسے تجزیہ اور خبرغیرجانبداری کے ترازو پر تولنا چاہئے اور یہ ترازو جماعت اسلامی کا ہو اور نہ ہی کسی دوسری سیاسی قوت کا۔(محمد ولید احمد، رپورٹر جیونیوز)

ابصارعالم حملہ کیس، ملزمان پر فردجرم عائد نہ ہوسکی۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں