pakistani sahafat ko ghatiya mayaraat tak kon laya

پاکستانی صحافت کو گھٹیا معیارات تک کون لایا

تحریر: ڈاکٹرمحمد اسامہ شفیق، مانچسٹر برطانیہ۔۔

رفتار ڈیجیٹل کے مالک فرحان ملک کو ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا۔۔فرحان ملک کون ہیں آئیے یہ جانتے ہیں۔

سماء چینل کے سابق ڈائریکٹر نیوز اور اس چینل کے شاید کسی نچلے عہدے سے ترقی کرکے اس مقام تک پہنچے والے فرد کے پاس کوئی صحافتی تجربہ یعنی رپورٹنگ و ایڈیٹنگ کا نہیں تھا۔ لہذا جس فرد کی بطور صحافی نہ تو تعلیم ہو اور نہ ہی تربیت وہ کیا گل کھلا سکتا تھا یہ آپ نے دیکھا ہوگا۔

فرحان ملک نے سماء میں بریکنگ المعروف ڈبے گھمانے کا ایک ایسا کلچر متعارف کروایا کہ جس نے پاکستان کی صحافت کا بیڑا غرق کردیا۔ صرف چند کیسز پر آپ کی توجہ رکھوں گا اور بلا کسی کم و کاست اپنی بات کو بیان کروں گا۔

جامعہ کراچی کے ایک استاد و طالبہ کے درمیان پاس فیل کرنے پر تنازعہ ہوا وہ طالبہ ہراسانی کمیٹی کو درخواست دیکر اس کو لیکر میڈیا میں پہنچ گئیں فرحان ملک جیسے فرد کو اور کیا چاھئے تھا انہوں نے ایک خاتون رپورٹر کو اس خبر کی کوریج پر مامور کردیا وہ میری طالبہ تھیں۔ سماء نے انتہائی جانبدارانہ رپورٹنگ کی اور بریکنگ نیوز میں پرائم ٹائم میں لکھا اور کہا کہ

 جامعہ کراچی کے اساتذہ بھیڑئیے بن گئے۔

معاملہ یکطرفہ تھا ہراسانی کا الزام بھی موبائل پیغامات تک ہی محدود تھا۔

جامعہ کراچی نے پیمرا میں رپورٹ کیا شکایاتی کونسل کے سربراہ محترم پروفیسر انعام باری مرحوم تھے انہوں نے رپورٹر و بیورو چیف فریال عارف سے پوچھا کہ اس خبر میں اساتذہ میں کتنوں کا ذکر ہے اگر ایک استاد ہے تو اساتذہ کا تڑکا کیوں؟ خبریت اور متوازن خبرنگاری کیا ہوتی ہے ذرا دوسرے فریق کا موقف خبر میں کیا ہے وغیرہ وغیرہ

خیر سماء کو اس کر پیمرا نے جرمانہ کیا بیورو چیف فریال عارف نے معافی مانگی اور خبر کی تردید کرنے کا حکم نامہ پیمرا نے جاری کیا۔

اب محترم فرحان ملک کو جامعہ کراچی سے خدا واسطے کا بیر ہوگیا۔ اس استاد نے کورٹ میں کیس کیا اور کیس جیت لیا

 اب وہ خاتون رپورٹر فرحان ملک سے ایک تنازعے میں سماء سے نکال دیں گئیں ان کے نام پر سمن آئیں تو ملازمین کے حقوق کے بھاشن دینے والے فرحان ملک کو ان کو منع کردیا کہ سماء اس معاملے میں انکی کوئی مدد نہیں کرے گا حالانکہ انسانی و صحافتی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ ادارہ اس خبر پر ان کے ساتھ جب تک کیس چلتا کھڑا رہتا خیر وہ خاتون ایک بڑی پریشانی سے گزریں ملازمت بھی نہیں اور وکیلوں کے خرچے الگ خیر وہ معاملہ انہوں نے خود حل کیا۔

2018 میں عمران خان کا چاند فیض یاب ہوچکا تھا اور چہار جانب ان کی بازگشت تھی میڈیا ان کا اسیر تھا جن کا نام فیض حمید تھا۔ میں لکھتا تھا اور جامعہ کراچی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر میڈیا پڑھاتا تھا تو کلاس میں اس کا تذکرہ اور میڈیا کے کردار پر بحث ہوتی تو یہ مثال بھی سامنے آجاتی۔ پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان مرحوم  جامعہ کراچی کے وائس چانسلر  تھے انہوں نے کئی ایک بار کسی استاد کے ذریعے سے پیغام بھجوایا کہ اسامہ سے کہوں احتیاط کرے ایک دن ان سے ملاقات ہوئی تو مجھے کہا کہ تم احتیاط کرو میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اگر میں کلاس میں میڈیا کے رجحانات نہ پڑھاوں تو کیا کروں، وہ خاموش ہوگئے کہنے لگے تم سوشل میڈیا پر لکھنے میں بھی احتیاط کرو لوگ تمھارے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔

جامعہ کراچی میں تحریک انصاف اسٹوڈنٹ ونگ کے ایک طالب علم کو نقل کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا خیر وہ میرا طالب علم تھا میں نے کہا اب نہ کرنا اس نے شور مچانا شروع کردیا کیونکہ وہ صاحب ایوننگ پروگرام میں بمشکل ڈی گریڈ میں داخل ہوپائے تھے لہذا ان کو لکھنا بھی نہ آتا تھا ایک دھمال مچا میں نے اس کو کمرہ امتحان سے نکال دیا اس نے سنگین نتائج کی کلاس کے سامنے دھمکیاں دیں۔ اس کے چند روز بعد انہوں نے چند طالبات کو ملا کر میرے اور ایک اور استاد کے خلاف ہراسانی کی درخواست جمع کروادی اور درخواست دفتر مشیر امور طلباء میں جمع ہونے کے دس منٹ کے اندر میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر آگئی۔ سماء اس میں صف اول میں تھا مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا خیر ایک میری طالبہ جو جیو میں رپورٹر تھیں انہوں نے مجھ سے معلوم کیا انہوں نے بظاہر فون کال کی تھی یہ نہیں بتایا کہ یہ خبر کا حصہ ہے میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے اور کس طرح کی شکایت درج کی ہے میں پہلے درخواست پڑھ لوں تو جواب دے سکتا ہوں۔ ان خاتون رپورٹر نے اس کو بریکنگ نیوز بناکر جیو پر چلا دیا خیر کچھ عرصے بعد انہوں نے آنسوں کے ساتھ معذرت کی اور کہا یہ سب کچھ بیورو چیف کی ایماء پر ہوا ہے ان کو استعمال کیا گیا۔

سماء میرے خلاف خبر کے لیے رپورٹرز کو ڈھونڈتا رہا تین رپورٹرز میرے طالب تھے تینوں نے کہا کہ اس خبر کی صداقت پر ان کو شک ہے لہذا متوازن خبر نگاری کی جائے۔ فرحان ملک طیش میں آئے اس میں بیچارے دو رپورٹرز کو اس حکم عدولی پر بعد میں ملازمت سے نکال دیا گیا ایک رپورٹر کو کہا کہ وہ تمھارے استاد ہیں تم طالب علم بن کر جاؤ اور موقف لو وہ آئے کیمرہ ساتھ تھا میں نے اپنا موقف دیا اس کو رات کے پرائم ٹائم پروگرام میں یکطرفہ یعنی میری بات کو کاٹ پیٹ کر اپنے حق میں استعمال کیا۔

میرے احباب میں سے چند ایک نے کہا کہ گیم فیض حمید اور تحریک انصاف کی ہے آپ کچھ نہیں کرپائیں گے لہذا خاموش ہو جائیں۔ یہ بھی رمضان المبارک کا ماہ تھا اور سال 2019 تھا اس یکطرفہ رپورٹنگ کے خلاف جامعہ کراچی کی انتظامیہ اور میں نے الگ الگ درخواستیں پیمرا میں دائر کردیں۔ پیمرا کی شکایاتی کونسل نے وہ درخواست اسلام آباد میں بھیج دی میں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ اس یکطرفہ مہم جوئی کو روکا جائے۔

ادھر فرحان ملک نے اپنے رپورٹرز کو کہا کہ پیمرا میں، میں خود جاؤنگا اور اس شکایت کی دھجیاں اڑا دونگا۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان اس میڈیائی جنگ کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان خبروں کی اشاعت کے دروان ہی ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئے۔

عدالت نے دوسری پیشی میں حکم نامہ جاری کیا کہ پیمرا کی سنوائی تک یہ خبر نشر نہ ہو۔ سماء روانہ میرے خلاف پرائم ٹائم میں خبر نشر کررہا تھا کہ اللہ کی غیبی مدد ہی تھی ورنہ سماء کے وکیل معیز جعفری، تحریک انصاف اسٹوڈنٹ ونگ کے وکیل جبران ناصر کے سامنے میری اور میرے وکیل کی کیا اوقات تھی۔

کیس پیمرا اسلام آباد میں لگا جامعہ کراچی نا دیدہ دباؤ پر اس کی سماعت می نہیں گئی سماء کا وکیل آیا لیکن دعوے دار فرحان ملک نہ آئے۔ وہ بھی بیچارہ بار بار دوران سماعت معافیاں مانگتا رہا، جیو کی جانب سے ان کے ڈائریکٹر آئے انہوں نے سماعت سے قبل ہی مجھ سے معافی مانگ لی اور دوران سماعت کچھ نہ بولے، ہم نیوز کے وکیل پریشان ہوگئے اور کہا کہ ہم نے تو ایک خبر ہی چلائی ہے مہم تو سماء  نے چلائی آپ ان کو پکڑیں۔ خیر ایک طویل سماعتوں کے بعدسماء کے خلاف فیصلہ آیا  لیکن فیض حمید کا دور تھا سماء نے معذرت نشر نہ کی کیونکہ قانون کی پاسداری کون کرتا ہے؟

آج بھی ماہ رمضان المبارک ہے لیکن سال 2019 نہیں 2025 ہے فرحان ملک جن کے ہاتھوں استعمال ہوئے وہ اب ان کے شکنجے میں ہیں میں ان کی رہائی کے لیے دعاگو ہوں لیکن اس شخص نے پاکستان میں ایک گھٹیا ترین طرز صحافت کی بنیاد رکھی ہے جو ہیجان پر مبنی ہے میں بطور صحافت کے استاد اس کو صحافت ہی نہیں مانتا یہ ایک نفسیاتی عارضہ اور اور چند نفسیاتی مریض میڈیا کی طاقت سے پوری قوم کو اس میں مبتلاء کررہے ہیں۔

آپ کو صحافت سے اختلاف بھی ہوتا اور اتفاق بھی لیکن ایسی صحافت کو صحافت کہا کہ نہیں جاسکتا۔ آپ میڈیا میں پیرا ٹروپرز کو لیکر آئین لیکن ان کو علم اور تربیت کے مراحل سے گزاریں۔

فیض حمید کی فیض یافتہ صحافت یا کسی شخص کی شخصیت پرستی میں مبتلاء صحافت سے قوم کو کچھ نہیں ملے گا سوائے ہیجان اور مایوسی کے۔

میں جو کچھ کل سوشل میڈیا پر لکھ رہا تھا آج وہ الحمدللہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پیش کررہا ہوں یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ اس سال ماہ رمضان المبارک میں University of Helsinki Finland

کی کانفرنس میں شرکت کی اور اپنا مقالہ پیش کیا عنوان وہی تھا جس کی پاداش میں 2019 میں یہ سب کچھ کیا گیا

آج اس کانفرنس میں شرکت کا سرٹیفیکیٹ موصول ہوا اور ساتھ فرحان ملک صاحب کی گرفتاری کی خبر بھی۔

میں کل جہاں تھا آج بھی وہیں ہوں میں اس ہیجان میں مبتلاء کروانے والوں کو کل بھی متنبہ کرتا تھا اور آج جب وہ اس کا پھل پارہے ہیں تب بھی یہی کہتا ہوں۔

قانون پر عملدرآمد لازمی ہے چاھے جب آپ اقتدار میں ہوں ، فیض یافتہ ہوں یا جب آپ مظلوم ہوں۔

اگر آپ اقتدار میں پہنچ کر یا فیض یافتہ ہوکر قانون کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے تو کل یہی کچھ آپ کے ساتھ ہوگا۔

اس تحریر کا مقصد اپنی ذات کی ستائش نہیں حالات سے مکمل آگہی دینا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم کو حق کے ساتھ انصاف کے ساتھ استوار رکھے۔ آمین۔۔والسلام۔۔(ڈاکٹر محمد اسامہ شفیق، مانچسٹر برطانیہ)۔۔

(اس تحریرکے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں