تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
اگر یہ بات سچ ہے کہ میڈیا اپنے سماج کا عکاس ہوتا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ گزشتہ دوماہ سے بھارتی میڈیا نے اپنے سماج کی بہت ہی گھناؤنی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہے ۔۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ دیش بھگتی یعنی ملک سے محبت کے نام پہ اسکے میڈیا نے دیش دروہی یعنی ملک سے غداری
کا ارتکاب کیا ہے کیونکہ اسکی اسکرینوں پہ بدترین گھناؤنے یکطرفہ پروپیگنڈے کا راج رہا ۔۔ جب بھی کوئی انڈین ٹاک شو دیکھیں تو اسکے اینکر کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی چنڈال لڑاکا عورت منہ میں جھاگ بھرے انتہائی اشتعال کے عالم میں چوبارے بلکہ چوک پہ آن کھڑی ہوئی ہے اور اب اسکے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں ۔۔ اور جسے ہر قیمت پہ ہندو تؤا کا بڑھاوا اور مودی جی کی خوشنودی عزیز ہے۔۔ جبکہ دوسری طرف پاکستانی میڈیا سچائی اور حقیقت دکھانے تک ہی محدود رہا اور اس نے جو جو کچھ حقائق اپنے اسکرینوں پہ پیش کیئے وہ سب کے سب درست ثابت ہوئے جبکہ انڈین میڈیا جنگی ہیجان میں مبتلاء ہوکے پر کو کؤا بنانے میں اس حد تک جت گیا کہ بعد میں اسے کسی پر کی بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔۔ اس ضمن میں ان سارے سچ اور جھوٹ کی تفصیل پھر کبھی ایک علیٰحدہ تحریر میں پیش کی جائے گی-
بلاشبہ یہ انڈین میڈیا کے اسی جارحانہ و جنونی طرز عمل کے جواب میں پاکستانی میڈیا کے سنجیدہ و مدبرانہ رؤیئے سے پیدا شدہ احساس شکست تھا کہ جسکے زیر اثر ایک بھارتی ٹاک شو میں اینکر صحافتی اقدار کی ہر حد کو پھلانگ گئی اور اسنے اپنے ہی ایک مہمان کو ذرا سا سچ بولنے ہی پہ شدید کھسیاہٹ کے عالم میں جنونی انداز میں چلاتے ہوئے ٹاک شو چھوڑنے اور پاکستان کے مؤقر چینل جیو ٹی وی پہ چلے جانے کے لیئے کہہ دیا ۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئی کہ اسکا یہ برتاؤ دراصل پاکستانی میڈیا کے ذمہ دارانہ طرزعمل کے سامنے کھلا اعتراف شکست ہے اور اسی لیئے سرحدوں کے دونوں طرف ٹی وی اسکرینوں کے سامنے جمے بیٹھے لوگ واضح طور پہ یہ محسوس کرنے پہ مجبور ہوگئے کہ پاکستانی میڈیا نے ہر اعتبار سے بھارتی میڈیا کو بری طرح سے پچھاڑ ڈالا ہے –
سبھی نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک ہلکی پھلکی سی جنگ تو وہ تھی جو پاک بھارت سرحد کے آس پاس لڑی گئی اور جس کا حاصل صرف یہ تھا کہ منظر نامے پہ سرحد کے دونوں طرف منہ کے بل گرائے گئے بھارتی طیارے تھے اور ایک قیدی بنے سورما پائلٹ کے بھیگی بلی بنے حوالگی کے نظارے تھے اور دوسرے بھارتی پائلٹ کی جلتی چتا کے انگارے تھےیا پھر پاکستانی ایئر فورس ہیڈ کوارٹر میں لٹکی ہوئی اس بھارتی پائیلیٹ کی وہ یونیفارم جس میں بھرے جنگی جنون کے شرارے تھے ۔۔۔ اور دوسری طرف ایک جنگ وہ تھی جو کہ دونوں طرف کے میڈیا اسکرینوں پہ لڑی گئی مگر اس محاذ پہ بھاتی مورچوں سے سفید جھوٹ کے گولے داغے گئے اور مکر و فریب کے بم گرائے گئے – درحقیقت ھندوستانی اسکرینوں پہ واضح طور پہ نہ تو ادنیٰ سے درجے کا بھی کوئی ذمہ دارانہ پروفیشنلزم موجود تھا اور نہ ہی اخلاقیات کا معمولی سا بھی احساس ۔۔۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کا طرز عمل اس کے قطعی برعکس بیحد پروفیشنل اور صحیح خبریت کے ادراک کے قریب تر تھا اور گو حربی سطح پہ پاکستانی فوج کو تو جیت کے لیئے خواہ چند روز لگے بھی ہوں لیکن بھارتی میڈیا نے پاکستانی میڈیا کے بالمقابل یہ جنگ شروع ہوتے ہی ہار دی تھی۔
یہاں ایک بات بڑی شدت سے ذہن میں گونج رہی ہے جو ہے تو بہت تلخ ، لیکن کہے بغیر چارہ نہیں ، اور وہ یہ ہے کہ سچ اگر ایک دوشیزہ ہے تو بھارتی میڈیا وہ وحشی ہے جو صبح و شام اس دوشیزہ کی عصمت دری میں مصروف ہے ۔۔ زیادہ تر اینکرز میں بال ٹھاکرے کی روح سمائی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ان میں سے اکثر کے ظاہری جوش و خروش کا عالم یہ ہے کہ وہ گویا جن سنگھ مہاسبھا ، آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے حلف یافتہ کارکنان کے سے روپ دھارن کرچکے ہیں ۔۔۔ ممکن ہے بھارت کے کچھ دوست اس بات کو یوں تسلیم نہ کریں لیکن یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جنگی ہیجان کے اس تمام عرصے میں انڈین ٹاک شو کے اینکرز کی اکثریت حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ بنی معلوم ہوئی اور خواہ وہ زی نیوز کے سدھیر چوہدری اور روبیکا ہوں انڈیا ٹوڈے کے راہول کنول ہوں یا آج تک چینل کی انجانانا کشیئپ و سویتا سنگھ یا سی این بی سی کی شیرین بھان یا ریپبلک چینل کے ارناب گوسوامی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ، سبھی جوش غضب سے ابلتی آنکھوں ، گلے کی پھولی رگوں اور منہ سے جھاگ نکالتے بدتمیزی اور ذلالت کے نئے ریکارڈ قائم کرتے دکھائی اور سنائی دیئے ۔۔۔ اور انکے شرمناک تیوروں سے صاف طور پہ یوں لگا کہ جیسے یہ سب جوشیلے و بڑبولے اینکرز مودی جی کے خصوصی پے رول پہ ہیں ۔۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی نامناسب نہیں کہ گزشتہ کئی برس سے بالعموم اور گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے انڈین اخبارات بالخصوص نیوز چینلز کی اکثر رپورٹوں اور ٹاک شوز کو دیکھنے سے بالیقین یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی سرکار نے اپنی مدح خوانی کرانے کے لیئے بہت بڑے سرمائے سےبھارتی میڈیا کی اکثریت کو اپنی الیکشن کمپین کا خصوصی ورکر بنا ڈالا ہے اور اسی لیئے اسکی پھینکی ہڈیوں پہ انڈین میڈیا کے بیشتر چھوٹے بڑے دم ہلاتے و جھپٹتے دکھائی دے رہے ہیں جس میں وہ ‘خصوصی ماہرین’ بھی نہایت خصوصی طور پہ شامل ہیں کہ جو انڈین فوج اور سفارتکاری کے اہم مناصب سے ریٹائر ہوکے فارغ ہیں اور سبکدوش ہونے کے بعد ملنے والی خطیر رقوم کو عیاشی میں اڑا ڈالنے کے بعد یہ مہاشے اب اسی طرح کی خصوصی فنڈنگ برائے آتشیں تبصرہ بازی و زہریلی تجزیہ کاری کی آکسیجن پہ زندہ ہیں – ان سب فراڈیوں اور لپاڑیوں نے مل کے مودی سرکار کی من گھڑت اسٹوریوں کو خوب نمایاں کیا اور سامنے نظر آتی ان سچائیوں کو بھی بری طرح سے روند ڈالا کہ جو گاہ بہ گاہ عالمی میڈیا سے جھلکتی رہیں اور بھارت کی جانب سے بالاکوٹ حملے کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے اس پہ سوال اٹھانے کو فوج کے تقدس پہ حملہ آور ہونے کے مترداف ٹھہرادیا گیا۔۔
بھارتی میڈیا کی ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اب یہ بات باآسانی کہی جاسکتی ہے کہ شاید دنیا میں کسی جگہ صحافت ایسی ذلیل و رسوا نہیں ہوئی ہوگی جیسی کہ ہندوستان میں ہوئی ۔۔ ان بھارتی اینکرز کے لب و لہجے اور انداز صحافت کو دیکھنے سے یہ بخوبی محسوس ہوا کہ گوئبلز اپنے زیادہ تر بچے بھارت کے نیوز چینلوں میں چھوڑ گیا ہے۔۔۔ اور ہندو تؤا کے نظریئے کے پاسبان بن کے انڈین میڈیا نے دراصل ایک ایسے طرز صحافت کو جنم دیا ہے کہ جسے گٹر جرنلزم کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل جیؤ نے اور دوسرے چینلوں نے بھی اپنی معروضی و معیاری طرز صحافت کے ذریعے اس میڈیا وار میں بھارتی میڈیا کو بری طرح سے دھول چٹا دی ہے۔۔(سید عارف مصطفی)