تحریر: وسعت اللہ خان
کوئی پاکستانی اخبار یا نیوز چینل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج اور نیم عسکری اداروں کی قربانیوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتا۔ہر چینل یا اخبار بھارت، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں طے شدہ ریاستی موقف کے ساتھ ہم آواز ہے۔کسی اردو چینل یا اخبار میں پشتون تحفظ موومنٹ کے اجتماعات یا منظور پشتین کے بیانات کی کوریج نہیں ہوتی کیونکہ حساس ریاستی اداروں کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم کی خبری تشہیر وسیع تر قومی مفاد میں نہیں۔ البتہ مذمت کی تشہیر قومی مفاد میں ہے۔قومی میڈیا لاپتہ افراد کے اہل ِخانہ کے وقتاً فوقتا لگنے والے احتجاجی کیمپوں کی کوریج سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ کیونکہ یہ موضوع بھی حساس فہرست میں شامل ہے۔
پچیس جولائی کے عام انتخابات سے پہلے، انتخابات کے روز اور بعد میں جو جو کچھ سننے میں آیا، اس بارے میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعدد مبصرین و سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو بھی میڈیا نے بحثیت مجموعی کھل کے ناقدانہ کوریج دینے سے پرہیز کیا کیونکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں اور یہ کہ جمہوریت کا سفر جیسے کیسے جاری رہنا چاہئیے۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پاک چین تعلقات اور سی پیک کے تناظر میں ریاستی لائن سے الگ نہیں سوچتا، نہ ہی چین کے اندرونی سیاسی و قومیتی معاملات و تضادات پر مغربی میڈیا کی ناقدانہ رپورٹنگ کو تشہیری و تبصراتی گھاس ڈالتا ہے۔افغانستان اور بنگلہ دیش کو چھوڑ کے دیگر برادر مسلمان ممالک بشمول سعودی عرب کے لیے میڈیا اور ریاست کا بیانیہ کم و بیش یکساں ہے۔پاکستان کے کسی نجی و سرکاری تعلیمی ادارے یا مدرسے میں کوئی ایسی نصابی کتاب نہیں پڑھائی جاتی جس سے مذاہب کے تقابل، نظریہ پاکستان، تاریخ، بنیادی ریاستی اداروں اور پارلیمنٹ وغیرہ پر تعمیری ناقدانہ مباحث یا سوالات کی حوصلہ افزائی اور اس کے نتیجے میں منطق و علم سازی ہو۔
جن جن ملکی و غیر ملکی این جی اوز کے بارے میں شبہہ ہے کہ وہ براہِ راست یا بلاواسطہ قومی و ریاستی مفادات کے لیے مضرِ صحت ہیں ان سب کا بوریا بستر گول ہو چکا ہے یا پھر نئے کڑے ضابطوں کے تحت کام کرنے کی اجازت ہے۔سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت کی الحمرا آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی کو بظاہر سٹیج ڈراموں کی آڑ میں ہونے والے لچر پن کو روکنے میں ناکامی پر توڑ دیا گیا ہے اور صوبائی وزیرِ اطلاعات نے حکم جاری کیا کہ آئندہ وہ ذاتی طور پر ڈراموں کے سکرپٹ پڑھ کے منظوری دیں گے تاکہ قومی ثقافتی اقدار کا کماحقہ تحفظ ہو سکے۔اسی الحمرا آرٹس کونسل میں تین ہفتے قبل منعقد ہونے والے فیض میلے میں چند مقررین کو اس خدشے کی بنا پر شرکت سے روک دیا گیا کہ ان کے منہ سے ایسی ویسی بات نہ نکل جائے جس سے نئی نسل گمراہ ہو جائے۔ میڈیا نے اس خبر کو بھی بتنگڑ بنانے سے بوجوہ پرہیز کیا۔
میڈیا نے پچھلے دس برس میں جس طرح زرداری اور نواز شریف حکومت کے لتے لیے اس کے مقابلے میں عمران حکومت کے لیے میڈیا کا رویہ اب تک بحثیتِ مجموعی دوستانہ یا نیم ناقدانہ ہے۔ میڈیا بھی واقف ہے کہ موجودہ حکومت پر پرانے انداز کی کھلی تنقید کا سینک کہاں کہاں پہنچ سکتا ہے اور خود میڈیا کے لیے ایسی خود سری کے کیا کیا امکانی معاشی و ادارتی نتائج نکل سکتے ہیں۔
رہا سوشل میڈیا تو جب سے فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے چند ماہ قبل سائبر سپیس میں سرگرم ریاستی بیانیے کے مخالف صحافیوں اور بلاگرز کے نام لے کر ان کے بیرونی ڈانڈے نقشوں اور گراف بنا کر بے نقاب کر دیے تب سے سائبر محاذ پر بھی سرکار اور ریاستی اقدامات کی مخالف یا ناقدانہ پوسٹوں میں خاصی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اور محبانِ وطن کی پر ہجوم غدار شناخت ٹرولنگ ایسی پوسٹوں اور ٹویٹس کا تسلی بخش قلع قمع کر رہے ہیں۔
اس سب کے باوجود تین روز قبل میجر جنرل آصف غفور کو تفصیلی میڈیا بریفنگ میں کہنا پڑ گیا کہ میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت میں کسی بھی دیگر ادارے سے زیادہ نوجوانوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔اگر یہی میڈیا اگلے چھ ماہ اندرونی و بیرونی سطح پر پاکستان کے مثبت پہلو اور ترقی دکھائے تو دیکھیں پاکستان کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مثبت تصویر دکھانے کے لیے پچھلے ایک برس میں جو اعلانیہ و غیر اعلانیہ انتظامات کیے گئے وہ بھی ناکافی لگ رہے ہیں۔اس کے بعد تو یہی راستہ ہے کہ تمام اخبارات و چینلز کے لیے ایک مرکزی نیوز روم تشکیل دیا جائے اور ایک ہی خبرنامہ اور اخباری صفحات تیار کر کے نشر اور شائع کرنے کا پابند بنا دیا جائے۔اس مقصد کے لیے برادر شمالی کوریا کے ماہرین بھی منگوائے جا سکتے ہیں جو صحافیوں، اینکروں، مدیروں اور مالکان کو تربیت دیں کہ ریاست اور میڈیا ایک ہی بانسری سے کس طرح یک رنگ و ہم آہنگ بیانئیہ دھنیں کامیابی سے تخلیق کر کے اجتماعی باجا بجا سکتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)