pakistani ishteharaat remote kidhar hai

پاکستانی اشتہارات ، ریموٹ کدھر ہے؟

تحریر: سدرہ راؤ

کھانے سے فراغت کے بعد ساری فیملی ماسٹر روم میں ٹی وی پر پاکستانی ڈرامہ دیکھ رہی تھی کہ وفقے کا دورانیہ آتے ہی سب چوکنے ہو گئے کہ جانے کب نازیبا جملوں یا حرکتوں پر مشتمل کوئی اشتہار چل پڑے اور چینل بدلنے کی ضرورت محسوس ہو۔اب وہ وقت نہیں رہا، جب مائیں ٹی وی پر “عینک والا جن” لگا کر ریموٹ اپنے ساتھ نعمت خانے لے جاتی تھیں اور بےفکر ہو رہتی تھیں کہ ان کا بچہ اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہی تفریحی پروگرام دیکھ رہا ہے۔ آجکل کے اشتہارات کی وجہ سے بچوں کو کارٹون بھی اکیلے بیٹھ کر دیکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سرف کا اشتہار کپڑے چمکانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف سرِعام آنکھ مٹکا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے بلکہ چوری پکڑے جانے پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا بھی سکھا رہا ہے۔

پینٹ کے اشتہار میں پینٹ کے دیرپا ہونے کی تسلی ہو جانے کے بعد بیگم شوہر کو سر تا پا دیکھتے ہوئے ذُومعنی انداز میں کہتی ہے “کاش، ہر چیز کی اتنی ہی مائلیج ہوتی”۔

فورجی سپیڈ کے اشتہار میں جوان لڑکیوں کو گلی کوچوں میں چیزوں پر سے پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دکھانے کی بھلا کیا تُک تھی۔ حالانکہ انسان کے بھاگنے کا پیمانہ نیٹورک کی رفتار کے پیمانے سے یکسر مختلف ہے۔ نیٹورک کلومیٹر کے حساب سے نہیں بھاگ سکتا اور انسان فورجی کی رفتار سے نہیں دوڑ سکتا۔ یہ اشتہار کسی بھی زاویے سے پڑھے لکھے ذہن کی اختراع معلوم نہیں ہوتا۔

ہماری چائے کے اشتہارات کو رومانٹک فلم کا مِنی پیک کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ ہمارے ہاں چائے کے اشتہارات بنانے والے ڈیڑھ دو منٹ میں آئیٹم سانگ سمیت پوری فلم دِکھانے کا فن جانتے ہیں۔

شان مصالحے کی وہ ایڈ بہت مزے کی ہے جس میں گھر کا ہونے والا داماد اپنی صورت، آمدن، یا تعلیم کی وجہ سے تو کسی کو امپریس نہیں کر پاتا۔ لیکن جیسے ہی وہ بریانی اور رنگ رنگ کے کھانے پکا کر ٹیبل پر چُن دیتا ہے، اگلے ہی لمحے وہ داماد تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ گویا مرد حضرات کا امورِ خانہ داری میں تاک ہونا داماد بننے کا معیار قرار پایا۔

اچھا ہی ہے۔۔۔

اب لڑکوں سے بھی سوال ہوا کریں گے،

بیٹا کون کون سے پکوان اچھے بنا لیتے ہو؟

سینا پرونا بھی آتا ہے یا نہیں؟

کوکا کولا کا وہ نیا اشتہار آپ سب نے دیکھا ہو گا جس میں لڑکی کو کوکا کولا کا نشہ بے دھڑک انجان لوگوں کی شادی میں کھینچ لے جاتا ہے۔ پھر وہ بوتل پینے کے بعد اُسی شادی میں غیروں کے سامنے ناچ ناچ کر گویا اُس بوتل کی قیمت چُکاتی ہے۔

کچھ نیا کرنے کا بھوت ایسا سوار ہوا ہے کہ اب بہو کے سر میں معمولی سر درد ہو گا تو سُسر جی چائے بنا کر بسکٹ کے ساتھ ساس اور بہو کو پیش کیا کریں گے۔

بے پردگی کا عنصر تو اب ہر جگہ نمایاں ہے۔ مردانہ چیزیں چاہے وہ سیفٹی ہو یا دو روپے کا بلیڈ، پرفیوم ہو یا کوئی کریم، عورت کے بغیر بکنا ناممکن ہے۔ نرم ملائم شیو کے اشتہار میں خواتین بچے کو نظر انداز کر کے جوان بندے کے گال چُھو کر گویا اسے کُوچی کُوچی کر رہی ہوتی ہیں۔

دو روپے کی معمولی سی چیونگم جس کے اشتہار کے لئے بچوں سے بھی اچھل کود کروائی جا سکتی تھی، مگر نہیں، جب تک ایک جوان جہان لڑکی لڑکوں کے ہجوم کے بیچ و بیچ اچھل اچھل کر وہ چیونگم نہیں کھائے گی، تب تک اس چیونگم کا بِکنا ناممکن ہے۔

اس ریسرچ کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے شیمپو اور چونے سے دودھ بنانے والوں نے۔ اسلیے ہم انکی چغلی نہیں کریں گے۔( سدرہ راؤ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں