تحریر: محمد بلال غوری
جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار تھے، نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش کو بھی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں چنانچہ انہوں نے کنڈو لیزا رائس، رمز فیلڈ اور ڈک چینی پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان بھیجا تاکہ وہ امریکہ کے نان نیٹو اتحادی کے بارے میں تمام تر تفصیلات اور جزیات معلوم کرے۔ جب یہ امریکی وفد اسلام آباد سے جیکب آباد جا رہا تھا تو کچھ ہی دیر بعد ان کو لے جانے والے خصوصی طیارے کا توازن خراب ہو گیا اور جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ کنڈو لیزا رائس نے گھبرا کر پوچھا کیا ہوا؟ انہیں بتایا گیا کہ جہاز کے انجن کو ایندھن کی سپلائی منقطع ہو گئی ہے۔ تینوں امریکی عہدیداروں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ اب کیا ہو گا؟ جہاز کے پائلٹ نے ہنستے ہوئے کہا، کوئی جگاڑ کرتے ہیں، آپ ٹینشن نہ لیں۔ دورہ مکمل ہونے کے بعد مذاکرات شروع ہوئے اور امریکی وفد نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ افغانستان میں کارروائیاں کرنے کے بعد سرحد پار کرکے پاکستان آ جاتے ہیں ان کا کچھ کریں، پاکستانی حکام نے بتایا کہ ان علاقوں میں ہمارا کنٹرول اور حکومت کی رِٹ تو نہیں ہے لیکن کرتے ہیں کوئی جگاڑ۔ اس سہہ رکنی وفد نے اور بھی کئی مواقع پر متعدد لاینحل مسائل جگاڑ کی مدد سے حل ہوتے دیکھے، اس لئے جب یہ وفد واپس امریکہ گیا تو جارج بش کو بتایا کہ پاکستانی بہت تیز طرار لوگ ہیں انہوں نے کوئی ایسی حیرت انگیز چیز ایجاد کی ہے جس سے دنیا کا ہر مسئلہ پلک جھپکنے میں حل کیا جا سکتا ہے، اس کے بارے میں زیادہ تفصیل تو معلوم نہیں البتہ اسے جگاڑ کہا جاتا ہے۔ جارج بش بھی بہت متاثر ہوا۔
اس نے بلا تاخیر پاکستانی ہم منصب کو ٹیلی فون کیا اور کہا آپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ہے، بس ایک کام اور کر دیں۔ پرویز مشرف نے کہا: جناب صدر بتائیں، ہم آپ کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ بش نے کہا: آپ نے کوئی حیرت انگیز چیز ایجاد کی ہے جس سے ہر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، بس یہ جگاڑ ہمیں دیدیں۔ مشرف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا، ہم نے آپ کا ہر مطالبہ پورا کیا لیکن یہ بات نہیں مان سکتے کیونکہ جگاڑ پر تو ہمارا پورا ملک چل رہا ہے، اگر ہم نے یہ آپ کو دے دی تو پاکستان کیسے چلے گا۔
محولا بالا واقعہ محض ایک لطیفہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ لطیفہ ہمارے معاشرے کے اجتماعی و انفرادی طرزِ عمل کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض الفاظ، کچھ تراکیب اور چند محاورے ایسے ہیں جن کا دنیا بھر میں کوئی متبادل اور مترادف نہیں۔ جگاڑ بھی ایسی ہی کثیر المقاصد اصطلاح ہے جو اپنے دامن میں الفاظ و معنی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ گھر ہو دفتر یا پھر کھیل کا میدان، جگاڑ ایک ایسی گیدڑ سنگھی ہے جو ہر جگہ کام آتی ہے۔ کالج سے چھٹی کرنا ہو، بغیر پڑھے نمبر لگوانا ہوں، بغیر پیسوں کے برگر یا پیزا کھانا ہو، پکنک پہ جانا ہو، گھر میں دیسی ساخت کا یو پی ایس لگانا ہو، بوتلوں میں برف ڈال کر پنکھے کو ایئر کنڈیشنر بنانا ہو، ایک انرجی سیور کو خراب ہونے کے بعد بار بار چلانا ہو، پیٹرول ختم ہو جانے یا ٹائر پنکچر ہو جانے کے بعد موٹر سائیکل دوڑانا ہو تو پاس بیٹھا جگری یار بے ساختہ کہ اٹھتا ہے ’’ابے کوئی جگاڑ کر‘‘۔ ہمارے معاشرے کو انفرادی طور پر جگاڑ لگانے کی ایسی لت لگی ہے کہ اب ہم محنت کرنے اور حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے بجائے ہر پل جگاڑ کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ جگاڑ کے شارٹ کٹ سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
جگاڑ دراصل وہ چیونگم ہے جسے آپ حسب استطاعت پھلا سکتے ہیں۔ آپ کی آمدنی کم جبکہ اخراجات زیادہ ہیں، آپ اپنی حیثیت سے بڑھ کر آسائشوں اور سہولتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جگاڑ سے ہی کوئی چمتکار ہو سکتا ہے۔ جگاڑ وہ پہنچا ہوا بابا ہے جس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ عیدالاضحی پر بھی گوشت محفوظ کرنے کیلئے انواع و اقسام کے جگاڑ دیکھنے کو ملے۔ بکرے بیچنے والوں سے خریدنے والوں تک سب کسی جگاڑ کی تاک میں تھے۔ یادش بخیر پانی سے گاڑی چلانے کا جگاڑ کرنے والے انجینئر کو کون بھول سکتا ہے۔ جگاڑ کی یہ روش اب تو انفرادی زندگیوں سے نکل کر ہمارے اجتماعی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ اب محکمے اور ادارے جگاڑ کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں صبح شام جگاڑ کے لامحدود امکانات پر بات ہوتی ہے۔ سنجیدہ نوعیت کے قومی مسائل پر پالیسیاں بنانے اور حکمت عملی طے کرنے کے بجائے جگاڑ کی کوشش کی جاتی ہے۔ معاشرے میں جگاڑ کی بڑھتی ہوئی کرامات دیکھ کر جہاں لوگوں کی ذہانت و فطانت کی داد دینا پڑتی ہے وہاں یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس قدر ’’جگاڑو قوم‘‘ ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیسے رہ گئی؟ ہر قسم کے جگاڑ کے باوجود ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کرسکا اور روز بروز معیشت زوال پذیر کیوں ہے؟ یوں تو جگاڑ کا مقصد پیسے بچانا اور محدود وسائل میں کام چلانا ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کنجوسی کے چکر میں نہ صرف بے پناہ وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ فضول قسم کے تجربات میں سرمایہ بھی توقعات سے کہیں زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال موجودہ حکومت کی کفایت شعاری پر مبنی پالیسی ہے۔ کسی جگاڑ کے تحت وزیراعظم سیکریٹریٹ کی بھینسیں بیچ دی گئیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ دودھ کی خریداری کے سبب وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں 18.86فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پیٹرول ختم ہونے پر موٹر سائیکل کو لٹا کر کچھ دیر کے لئے چلایا جا سکتا ہے، ممکن ہے ریموٹ کے سیل ختم ہونے پر انہیں دانتوں سے چبا کر کچھ دیر کی لئے قابل استعمال بنا لیا جائے مگر ملک جگاڑ کے ذریعے نہیں چلائے جا سکتے۔ قومیں جگاڑ کے ذریعے ترقی نہیں کر سکتیں۔(بشکریہ جنگ)