channels ko ahtejaaj ki coverage karne se rok dya gya

پاکستانی ڈراموں میں خودکشی کی پروموشن۔۔

(خصوصی رپورٹ۔۔)

کتنی بے شرم ہو ،اتنا سب ہونے کے بعد بھی نہیں مرتی۔ کیوں نہیں مرتی؟ اتنا آسان تو ہے مرنا۔۔ کیسے؟۔۔۔بہت طریقے ہیں۔

یہ وہ مکالمے ہیں جو ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ کی اٹھارہویں قسط میں بولے گئے۔ڈرامے میں مشعل نامی کردار وہاں موجود مہرین کے کردار کو خودکشی پر اکسا رہا ہے اور مشعل اسے اپنی جان لینے کے طریقے بھی بتا رہی ہے۔چند لمحوں بعد مہرین فرش پر صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی ہے اور اب وہ مشعل کے بتائے گئے ایک طریقے سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کو تیار ہے۔اسی لمحے اسے اپنے بچپن کا وہ لمحہ یاد آتا ہے جس میں اس کے سامنے اس کے والد کی لاش پڑی ہے۔ اس کے والد نے بھی خود کو گولی مار کر خود کشی کی تھی۔ڈرامے کی کہانی بھی ایک ایسی موت کے گرد گھومتی ہے جس میں جان لینے کے لیے نیند کی گولیاں استعمال کی گئی ہیں۔تشویشناک بات یہ ہے کہ ان تمام مناظر میں کسی بھی موقع پر خود کشی سے متعلق آگاہی، تنبہی یا ایسے خیالات آنے کی صورت میں مدد حاصل کرنے کے لیے بنی ہیلپ لائنز کا ذکر نہیں کیا گیا۔

ورلڈ بینک کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے تقریباً نو لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد 15 سے 35 کے درمیان ہے۔پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے مطابق سال 2020 میں 1700 سے زیادہ افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔پاکستان میں اب کئی ایسے ڈرامے بن رہے ہیں جن میں کرداروں کو سگریٹ پیتے یا شراب نوشی کرتے دکھایا جاتا ہے مگر ایسے تمام مناظر کے ساتھ سکرین پر ’تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے‘ یا ’شراب نوشی کی ممانعت ہے،‘ جیسے پیغامات بھی چلائے جاتے ہیں۔سگریٹ اور شراب کے سین دکھاتے ہوئے اگر ان سے بچنے کا پیغام چلایا جا سکتا ہے، تو خودکشی کے مناظر کے وقت ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟

’کیا یہ اجازت دینے سے پہلے سکرپٹ پڑھتے نہیں ہیں؟‘

اس ڈرامے کی اٹھارہویں اور پھر انیسویں قسط میں ایک بار پھر خودکشی پر اکسانے کے مناظر کے بعد جہاں کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اس پر تنقید کی وہیں کئی نے ’ٹوئٹر سپیس‘ پر سیشن بھی کیے۔

ٹوئٹر صارف عائشہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا سے سوال کیا ہے کہ ’ایسا مواد ایک قومی ٹی وی پر دکھانے کی اجازت کیسے دے دی گئی؟ کوئی اس پر بات کیوں نہیں کر رہا۔ کبریٰ (مشعل) کا کردار ماہرہ خان (مہرین) کے کرداد کو مشورے دے رہا ہے کہ خودکشی کیسے کرنی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے یہی سین سماجی رابطوں کی ایک اور ویب سائٹ انسٹا گرام پر دیکھا، ‘میں دنگ رہ گئی۔ گھروں میں جب مائیں ڈرامہ دیکھتی ہیں تو اکثر چھوٹے بچے ان کے ساتھ ہی ڈرامہ دیکھتے ہیں۔ یہ کیسا تفریحی مواد ہے اور یہ کس قسم کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ اجازت دینے سے پہلے سکرپٹ پڑھتے نہیں ہیں؟ڈراموں کا مواد کسی بھی سطح پر اتھارٹی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا۔۔

پیمرا کے ایک اہلکار سے قواعد و ضوابط سے متعلق سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ پاکستان میں ‘پری سینسرنگ’ (یعنی ڈرامہ نشر ہونے سے پہلے کسی ادارے کی منظوری) موجود نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈراموں میں کیا چل رہا ہے یہ ان چینلز کا اپنا ایڈیٹوریل چیک ہوتا ہے کہ کیا چلانا ہے اور کیا نہیں۔پیمرا صرف اس وقت کارروائی کرتا ہے جب اسے کوئی شکایت موصول ہو یا یہ خود کچھ ایسا نوٹ کرے جہاں کھلم کھلا ہمارے مندرجہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی سطح پر ’اگر پرتشدد رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ یقینی طور پر پیمرا کے قواعد کی خلاف ورزی ہے۔پیمرا کے اہلکار نے بتایا کہ ٹی وی ڈراموں کا مواد کسی بھی سطح پر اتھارٹی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا اور اس سلسلے میں نشریات سے پہلے ‘ایپروول’ (منظوری) کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

معروف لکھاری اور کالم نگار آمنہ مفتی سے کہتی ہیں کہ انھیں حیرت ہے کہ ایک بڑی اعلیٰ پائے کی ٹیم نے ایسا مواد تحریر و ترتیب دیا اور پھر اسے نشر بھی کیا گیا۔میں خود بھی ڈپریشن اور اس سے پیدا ہونے والے خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے والے خیالات ہر لکھ چکی ہوں اور اس دوران مجھے کئی مواقع پر ماہر نفسیات کی مدد لینی پڑی۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈرامے میں ایسے مکالمے شامل کیے گئے۔ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے نہایت غیر محتاط رویہ اختیار کیا گیا اور اس کا سوال ڈرامہ تحریر کرنے والوں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر سے ہونا چاہیے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اور یہ سب لوگ جانے مانے اور سمجھدار لوگ ہیں جو ان ایشوز پر بات بھی کرتے رہتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کیا یہ مواد ڈائریکٹر یا اداکاروں نے نہیں دیکھا ہو گا؟مصنفہ اور کالم نگار آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ یہ ایک حساس موضوع ہے اور اس ڈرامے کی ٹارگٹ آڈیئنس نوجوان اور ٹین ایج کے بچے ہیں، ‘خودکشی اور ڈپریشن پر ضرور بات ہونی چاہیے مگر اس قدر غیر محتاط انداز میں ان مسائل پر بات کی گئی تو یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے خطرناک ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اس مسئلے پر ڈائیلاگ لکھتے ہوئے بہتر ہوتا کہ ایک ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاتی۔ ’ایک ایسے وقت میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے جب معاشرے میں نفسیاتی مسائل اور ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ یہ سوال ڈرامہ لکھنے والوں اور اس کو بنانے والوں سے ہونا چاہیے کہ ایک حساس معاملے پر اس قدر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟

یہ صورتحال پر منحصر ہے کہ ناظرین پر اس کا مثبت تاثر ہو گا یا منفی۔۔۔اور پھر یہی سوال جب اس ڈرامے کے ڈائریکٹر فاروق رند سے کیا گیا تو انھوں نے کچھ یوں جواب دیا: ’ مشعل، مہرین کو آئیڈیاز نہیں دے رہی، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو آئیڈیاز دے رہی ہے۔۔۔۔ مجھے کیسے مرنا چاہیے۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ اگلے ہی سین میں وہ اپنے باپ سے بات کر رہی ہیں۔ یہاں بھی وہ اپنے والد سے نہیں بلکہ خود سے بات کر رہی ہیں۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ خود کو خود کشی نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔خیال رہے کہ خود کشی کی کوشش کے منظر کے بعد اگلے ہی سین میں مہرین کو اپنے والد کی شبیہہ نظر آتی ہے جس میں وہ اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہیں کہ انھیں لڑنا چاہیے اور وہ خودکشی کا وہ عمل نہ دہرائیں جو ان کے والد نے برسوں پہلے کیا تھا۔ڈائریکٹر فاروق رند نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سو یہ صورتحال پر منحصر ہے کہ ناظرین پر اس کا مثبت تاثر ہو گا یا منفی۔وہ کہتے ہیں کہ ’عام الفاظ میں یہ کردار ہے جو یہ سوچتا ہے کہ میں کیسے خود کشی کر سکتی ہوں (لیکن) مجھے یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ خود ماہرہ خان، جو اس ڈرامے میں مہرین کا کردار نبھا رہی ہیں، بھی ڈپریشن اور خود کشی پر بات کرتی رہی ہیں۔نومبر 2018 میں جب ایک نجی تعلیمی ادارے کی طالبہ نے خودکشی کی تو ماہرہ خان نے سوشل میڈیا پر رائے دیتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ‘ہم کب ذہنی صحت کے معاملے پر سنجیدہ رویہ اختیار کریں گے؟ ہم کب لوگوں کو پاگل کہنا بند کریں گے اور کب انھیں ان کے احساسات پر نشانہ بنائیں گے؟ ہمیں سکولوں میں کاؤنسلرز (مشاورت کرنے والے ماہرین) کی ضرورت ہے جو صرف طلبا ہی نہیں والدین اور اساتذہ میں بھی آگاہی پیدا کریں۔(بشکریہ بی بی سی اردو)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں