Pakistani drame or in ka irtika

پاکستانی ڈرامے اور ان کا ارتقاء۔۔

تحریر: امبر زیدی۔۔

آج سے تقریبا اٹھارہ بیس سال قبل پاکستان میں میڈیا کو اتنی کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی، پرائیویٹ میڈیا کا کوئی تصور نہیں تھا،جو خبریں نشر کی جاتی وہ صرف سرکاری میڈیا پر ہی ہوتی تھیں، ڈراموں کے لیے بھی ایک خاص وقت مختص ہوتا تھا لیکن دور جدید کی طرح اس وقت بھی ڈرامہ نگاروں نے اپنی بہترین تحریروں کے ذریعے سے لوگوں کو اپنا دلدادہ  بنائے رکھا، اس وقت مقابلہ بھی اتنا سخت نہیں تھا لیکن لکھنے والے بلاشبہ بہت کمال کے تھے ہر شخص اپنی مثال آپ تھا، اشفاق احمد،بانو قدسیہ، انور مقصود ہوں یا فاطمہ ثریا بجیا اردو ادب میں ایسے کئی نام ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

پھر ایک دور ایسا بھی آیا تھا کہ  جس میں لوگ صرف انڈیا کے ڈرامے دیکھتے تھے ان کی فلمیں ان کے گانے، ایوارڈز اور ریلیٹی شوز کہ جس نے ہماری نسل کو تباہ و برباد بھی کیا اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے سماجی اخلاقی اور ثقافتی اقدار کو بھی نقصان پہنچایا۔ لیکن آج حال یہ ہے کہ پڑوسی ملک کے بنائے گئے ڈرامے  اور فلمیں مسلسل فلاپ ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، آئٹم نمبر کو متعارف کروانے والوں کو یہ معلوم  نہیں تھا کہ ان کا یہ ٹرینڈ ان کے اپنے معاشرے کے لیے تباہی و بربادی کا سبب بن جائے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری قوم دیر سے ہی صحیح لیکن سمجھ گئی کہ کس طرح وہ خود ایک سوچی سمجھی سازش کا نشانہ بن رہے ہیں۔

پاکستان میں کچھ عرصے میں ڈرامہ نگاروں نے ایسی کہانیاں لکھنا شروع کیں جو درحقیقت ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔ معاملہ ساس بہو کا ہو یا پھر گھریلو تشدد کا، جلن حسد سے کس طرح انسان کے اپنے خاندانی رشتوں کا متاثر ہونا ہو یا پھر امیر و غریب کا فرق گوہکہ قلم نگاروں نے معاشرے میں موجود برائیوں کو جس خوبصورتی کے ساتھ اوراق پرمحفوظ کیا آج جب وہ ٹی وی اسکرین پر نشر ہوتے ہیں، ان کا مشہور ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ پاکستانی ڈرامے آج کل تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو اس کو مثبت انداز میں لے رہا ہے اور ایسے افراد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ڈراموں میں بہت زیادہ بڑھا کر دکھایا جارہا ہے یہ ہمارے معاشرے کی کچھ ایسے سخت حقائق ہیں جن سے نظریں نہیں پھیریں جا سکتیں۔ کچھ مہینوں سے ایک ڈرامہ عوام میں بے حد مقبول ہوا ہے۔۔ اشارہ “میرے پاس تم ہو” کی طرف ہے، ٹی وی تو کیا اس کا موضوع سوشل میڈیا میں بھی زیر بحث ہے، پاکستانی عوام سمیت بیرون ملک مقیم افراد کا بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے،اداکاروں کی اداکاری اپنی جگہ لیکن جس نے اس ڈرامے کو تحریر کیا لوگ ان کے بھی مداح ہوگئے ہیں،لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے کچھ خاص نظریات کی وجہ سے پہلے ہی سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ خلیل الرحمان قمر بلاشبہ جس طرح وزن میں جملوں کو تحریر کرتے ہیں، الفاظ کا سہارہ لیتے ہوئے اپنی بات سمجھانے کے فن سے خوب واقف ہیں، آسان زبان میں گہری بات کرنا بھی ایک مہارت ہے اور ہر شخص اس کام میں ماہر نہیں ہوتا۔

     “میرے پاس تم ہو” نے جس جانب بے حد شہرت حاصل کی تو دوسری جانب تنقید کی زد میں بھی آیا، خواتین کو ہر بات کا قصور وار ٹھہرانا، بے وفا عورت معافی کے قابل نہیں، طلاق لینے والی عورت خدا کو پسند نہیں، پیسے کی خاطر اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ دینا کیا اس کا حق نہیں؟ عورت کی حیثیت کیا دو ٹکے کی ہے؟ سوالات بھی ہیں اور اعتراضات بھی، کچھ سوال بجا ہیں لیکن غلطی مرد کرے یا عورت غلطی غلطی ہی کہلائے گی۔ اس کا معیار مرد ہونے یا عورت کے ہونے سے طے نہیں کیا جاسکتا، یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ “ہم کب تک زیادتی اور ساس بہو کے مسائل میں پھنسے رہیں گے”؟ تو جناب والا کیا یہ ہمارے معاشرے کے مسائل نہیں ہیں؟ ان کو زیر بحث نہیں آنا چاہئیے؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے آدھے سے زائد فیصد افراد ایسے سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ خودکشی، ذہنی پریشانیاں یہیں سے جنم لے رہی ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ رہی بات عورت اور مرد کی ذمہ داریوں کی تو اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ چلانے والی ایک عورت ہی ہے، نسلوں کی تربیت عورت ہی کرتی ہے، اگر ایک بچی کو آپ علم حاصل کرنے سے روک رہے ہیں تو حقیقت میں ایک نسل کو تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم کررہے ہیں، گھر کا نظم و ضبط عورت کہ دم سے ہے۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین نے اپنے حقوق بنائے ہوئے ہیں، وہ اس نظریے کی قائل ہیں کہ وہ جو چاہیں ان کو کرنے کی اجازت دی جائے وہ بھی جینے کا حق رکھتی ہیں،یہ ان کی اپنی مرضی ہے کہ جس قسم کا لباس زیب تن کرنا چاہیں کریں، ہمیں مردوں کا محتاج نہیں ہونا، ہمیں آزادی چاہئیے۔

عورت کو آزادی ملنی چاہیے اور جتنی آزادی اور حقوق خواتین کو مذہب اسلام نے دیے ہیں اتنا دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دیے اور وہ قوم جس کا شمار دنیا کے مہذب اقوام میں کیا جاتا ہے ان کے نام گرامی فلسفیوں کے نزدیک عورت ایک فتنا و فساد سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنے ہی لوگ اس میں اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں اور بیرونی طاقتوں کی باتوں میں آکر ان کو اپنا خیر خواہ بنا لیتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ہم کرتے چلے جاتے ہیں۔ یاد رکھیئے! وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں جنہوں نے اپنی زبان، مذہب کو نہ اہمیت دی اور سماجی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کو ٹھیس پہنچائی۔

مرد اورعورت کی جسمانی ساخت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پروردگار نے ان کی ذمہ داریوں کو متعین کیا ہے اگر صرف فرائض اورحقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچ جائیں تو معاملات بہتر ہوجائیں گے۔۔(امبرزیدی)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں