تحریر: حماد رضا
ہندوستانی جنتا کے دلوں میں اگر آج پاکستان کا تھوڑا بہت مثبت تشخص برقرار ہے تو اس کا سب سے بڑا سبب پاکستانی ڈرامہ اور نائنٹی کے دور کا میوزک ہے ماضی میں پاکستانی ڈرامے نے جہاں ملکی شاہراؤں کو سنسان کیے رکھا وہیں ہمسایہ ملک کے لوگوں کو بھی اپنے سحر میں عرصہ دراز تک جکڑے رکھا اگر دورِ حاضر کے پاکستانی ڈرامے کی بات کی جاۓ تو پاکستانی ڈرامہ ایک عرصے سے زبوں حالی کا شکار نظر آتا ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ موضوعات کی یکسانیت ہے زیادہ تر ڈراموں میں عورت کے کردار کو مجروع کر کےپیش کیا جاتا ہے اور گھما پھرا کر عورت کی ہی زندگی اور اس کے منفی پہلوؤں کو ڈراموں کا موضوع بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج کا ڈرامہ ناظرین کی وہ توجہ حاصل نہیں کر پاتا جو وہ ماضی میں حاصل کرتا رہا ہے ارطغرل غازی کو بھی پاکستان میں اسی لیے زیادہ مقبولیت اور توجہ ملی کہ وہ تاریخی موضوع پر مبنی ڈرامہ تھا ناظرین ایک جیسے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ کا شکار ہو چکے تھے جس میں اس ترکش ڈرامے نے تازہ ہوا کے جھونکے کا کردار ادا کیا میرے ذاتی خیال میں پاکستانی ڈرامے کی زبوّں حالی کی دوسری سب سے اہم وجہ اس کی غیر ضروری طوالت ہے پاکستانی ڈرامہ اس وقت تک مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرتا رہا جب تک کھیل کو صرف تیرہ اقساط میں ختم کر دیا جاتا تھا یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہندوستان نے بے شک پاکستانی ڈراموں کی تعریف کی لیکن انھوں نے کبھی بھی پاکستانی ڈرامے کی عملی تقلید نہیں کی ہندوستان نے کبھی اپنے ڈرامے کے ساتھ کوئ ایسا تجربہ نہیں کیا کہ روایتی طوالت اور ڈھن ڈھنا ڈھن والے ڈراموں کو مختصر کر کے پیش کیا جاۓ اور پھر اپنی ملکی آڈینس کا متوقع ردِعمل دیکھا جاۓ لیکن اس کے برعکس پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جو مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر چکی تھی اپنی روایت کو چھوڑ کر ہندوستانی روایت کو اپنا کر سینکڑوں قسطوں پر محیط ڈرامے بنانے کی پالیسی اپنا ۓ ہوۓ ہے جس کی وجہ سے لوکل ڈرامے کے زوال کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا طوالت ہمیشہ یکسوئ کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے آج کل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے لوگوں کے پاس وقت کی قلتّ کے باعث ہر چیز کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ کل کی لمبی لمبی داستانوں نے آج شارٹ سٹوریز کی شکل لے لی ہے ناول پیچھے رہ گیا افسانہ آگے نکل آیا طویل کہانیوں کی جگہہ پر سو لفظی کہانیاں آگئیں ادب میں مائکرو فکشن جیسی اصطلاحات استعمال ہونے لگیں یہ سب چیزیں بدلتے دور کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں آج کا دور تو وہ دور ہے کہ ایک مشہور یو ٹیوبر کو بھی ناظر کو اپنی ویڈیو پوری دیکھنے کے لیے ویڈیو کے شروع میں التجا کرنی پڑتی ہے کہ بھائ ویڈیو اینڈ تک پوری دیکھنا حالانکہ اس ویڈیو کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ منٹ طویل ہوتا ہے جہاں ناظر کے اتنے نخرے ہوں وہاں آپ اسے سینکڑوں قسطوں پر مبنی ڈرامہ دیکھانے کی امید رکھے بیٹھے ہیں ؟ جس کا کلی طور پر الٹ نتیجہ نکلتا ہے ناظرین ڈرامے کے ساتھ وقتی طور پر جڑ تو ضرور جاتے ہیں لیکن ڈرامے کی طوالت کی وجہ سے اکتاہٹ کا شکار ہو کر اسے درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ نا جانے یہ ڈرامہ کتنا عرصہ چلے اور کب ختم ہو انٹرٹینمنٹ چینلز مالکان اور پروڈیوسرز کو ان اسباب کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی فوری ضرورت ہے اگر اس طرف فی الفور توجہ نا دی گئ تو پاکستان ڈرامہ انڈسٹری بھی فلم انڈسٹری کی طرح تباہی کے دہانے پر آ کھڑی ہو گی۔(حماد رضا)