pakistan television ko bachalijiye

پاکستان ٹیلیویژن کو بچا لیجئے

تحریر:محمد اطہر سلطان مغل

قارئین !  میرا آج کا کالم پیارے پی ٹی وی کے بارے میں ہے ۔ اپنے قیام سے مسلسل تین دھائیوں تک پاکستانی عوام کے لیے تفریح ، تعلیم و تربیت اور معلوماتِ عامہ کا سب سے بڑا ذریعہ پاکستان ٹیلی ویژن ہوتا تھا جو خاص طور پر اپنے ڈراموں کے اعلیٰ ترین میعار کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر جانا جاتا تھا۔ ڈش ، کیبل اور سیٹلائٹ پر نجی اور عالمی ٹی وی چینلوں کی آمد سے پی ٹی وی کی قدرومنزلت میں کمی ہوئی۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پوری کر دی اور آج اس عظیم ادارے کو بہت سے چیلینجز کا سامنا ہے ۔ آئیے پی ٹی وی کے آغاز کے عوامل  پہ بات کرتے ہیں ۔

پاکستان ٹیلیویژن کا قیام 26 نومبر 1964 میں ایک جاپانی کمپنی NEC کے فنی تعاون سے لاہور میں الحمرا آرٹس کونسل کی پرانی عمارت کے لان میں خیمے لگا کر قائم کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ریڈیو پاکستان لاہور کی کینٹین میں بھی پہلا باقاعدہ ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت کے ساتھ خالی پلاٹ پر ملک کے پہلے ٹیلی ویڑن سینٹر کی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ ابتدائی دور میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات روزانہ تین گھنٹے کے لیے ہوتی تھیں جب کہ سوموار کے دن نشریات کی تعطیل ہوتی تھی ۔ ٹیلیویژن کا یہ شیڈول دسمبر 1971ء تک چلتا رہا۔  اس وقت ضلع لاہور میں صرف تین سو کے لگ بھگ  افراد اپنے اپنے ذاتی ٹی وی سیٹ کے مالک تھے لیکن شہر کے مختلف پبلک مقامات پر دو سو کے قریب ٹی وی سیٹ آویزاں کردئیے گئے تھے ۔ اکثر اوقات منچلوں کا ہجوم رہتا تھا ۔ یہ لوگ بڑے ذوق و شوق سے ابتداء سے انتہاء تک پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات دیکھتے تھے۔ پی ٹی وی پہ سب سے پہلے قاری علی حسین صدیقی نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی ۔ جبکہ طارق عزیز ٹی وی پہلے مرد اناونسر بنے اسی طرح محترمہ کنول نصیر پہلی خاتون اناونسر کہلائی تھیں ۔ جمعرات کے تاریخ ساز دن  26 نومبر 1964ء کو شام چار بجے پاکستان ٹیلی ویژن کی بلیک اینڈ وہائٹ سکرین پر جو پہلی متحرک تصویر نمودار ہوئی ، وہ قاری علی حسین صدیقی کی تھی جنھوں نے تلاوتِ قرآن پاک سے نشریات کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد صدر جنرل ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی۔ پہلے اناؤنسر اور اداکار طارق عزیز نے اس دن کا آغاز ٹی وی پروگراموں کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے ہی شام آٹھ بجے کی پہلی اردو خبریں بھی پڑھیں جبکہ کنول نصیر نے ان کی معاونت کی ۔ انیس احمد پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے کیمرہ مین جبکہ اسلم اظہر ، پہلے مینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور پر پہلا پروگرام “بصیرت” تھا جو ایک مذہبی پروگرام تھا جس کو نثار محمدحسین نے تیار کیا تھا۔ انھوں نے ایک دستاویزی پروگرام “ہمارے دستکار” بھی پیش کیا تھا۔ اس کے بعد ذہنی آزمائش کا ایک پروگرام “بوجھو تو جانیں” ، اشفاق احمد (تلقین شاہ) نے پیش کیا جس کے  بعد کھیل کے پروگرام میں ٹیبل ٹینس کا میچ دکھایا گیا۔  موسیقی کا پہلا پروگرام “لوک موسیقی” کے نام سے پیش کیا گیا جس میں معروف لوک فنکار طفیل نیازی نے اپنا مشہور گیت “لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کر کے۔۔” سنایا۔ سائیں اختر اور فضل الہیٰ سمیت دیگر لوک فنکار بھی اس پروگرام میں شریک تھے۔ ان کے علاوہ انگلش خبریں ، ایک سائنسی پروگرام ، بچوں کے لیے پتلیوں اور کارٹون کے پروگرام اور خواتین کے لیے گھربار کے علاوہ ایک انگلش فلم بھی دکھائی گئی۔ پہلا اشتہار NEC کا تھا جو بلا معاوضہ دکھایا گیا تھا۔ اس وقت 30 سیکنڈ اشتہار کی قیمت 35 روپے ہوتی تھی۔ فلم اور کھیل کے علاوہ دیگر سبھی پروگرام براہِ راست نشر کئے جاتے تھے جن کی اصل ریکارڈنگ دستیاب نہیں ہے۔ پانچ گھنٹے کی ابتدائی نشریات کا اختتام رات نو بجے قومی ترانے سے ہوا تھا۔

پاکستان میں ٹیلی ویژن کی ایک ماہ تک جاری رہنے والی اس پہلی نمائش کا افتتاح قائم مقام گورنر جنرل میجر جنرل سکندر مرزا نے کیا جن کی تقریر کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس وقت وزیرِاعظم ، محمد علی بوگرا تھے جو امریکہ میں سفیر کے عہدے سے براہِ راست وزیرِ اعظم پاکستان کے عہدے تک پہنچے اور اپنے ساتھ امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کے علاوہ امریکی اثرورسوخ ، امریکی گندم (اور سونڈی) کے علاوہ امریکی سفارتخانے کی مدد سے ٹی وی بھی لے کر آئے تھے۔  یکم جنوری 1960ء کو جنرل ایوب خان کے قائم کردہ تعلیمی کمیشن نے بھی پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کی تجویز پیش کی۔ 5 اکتوبر 1960ء کو کابینہ نے اس تجویز کی منظوری کا فیصلہ کیا۔ 1961ء میں صدر ایوب نے جاپان کے دورہ کے دوران  وطن عزیز میں ٹیلیویژن کے قیام پر دلچسپی ظاہر کی تاکہ ذرائع ابلاغ کے میدان میں قومی شعور وسیع تر ہوسکے ۔ سری لنکا میں طے کردہ کولمبو پلان کے تحت ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے جاپانی وفد پاکستان آیا اور اس پر ابتدائی کام شروع ہوا۔

اس دوران 12 اکتوبر 1962ء کو ایک بار پھر کراچی میں فلپس (Philips) الیکٹرونک کمپنی نے سوا ماہ تک ایک عارضی ٹیلی ویژن سروس کا مظاہرہ کیا جس میں شہر کے مختلف علاقوں میں نصب دوسو کے قریب ٹی وی سیٹوں پر غیرملکی پروگراموں کے علاوہ اردو میں مختلف ریکارڈ شدہ پروگرامز دکھائے گئے جو شہریوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث بنے۔ اسی دوران 13 نومبر 1962ء کو صدر جنرل ایوب خان کی تقریر بھی دکھائی گئی جو بطورِ خاص اس نمائش میں شریک ہوئے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی 1964ء میں نشریات صرف 9.32 فیصد تک عوام میں دیکھی جاتی تھیں جو صرف ایک فیصد ملکی رقبہ پر مشتمل تھی۔ پی ٹی وی کی آمدن ڈیڑھ لاکھ روپے تھی۔ صرف دس برسوں میں یعنی 1974ء تک، پاکستان ٹیلی ویژن کی رسائی 48 فیصد ناظرین تک ہوگئی تھی جو 16 فیصد علاقوں پر مشتمل تھی۔ اس عرصہ میں پی ٹی وی کی آمدن پونے تین کروڑ روپے تک جا پہنچی تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی دوسری دھائی یعنی 1984 تک 80 فیصد آبادی اور 34 فیصد علاقوں تک ٹی وی نشریات کی رسائی ہوگئی تھی اور آمدن 22 کروڑ سے تجاوز کر گئی تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے 1964ء میں 2 چینل تھے جو 30 سال بعد 1994ء میں 6 ہوئے۔ اس دوران 38 ری براڈکاسٹنگ سینٹر بھی بنائے گئے جن سے ٹی وی کی نشریات 88 فیصد عوام تک پھیلیں جو 39 فیصد علاقوں پر مشتمل ہیں۔ پی ٹی وی کا عملہ 36 ملازمین سے 5900 تک جا پہنچا جبکہ آمدن ڈیڑھ لاکھ روپے سے 82 کروڑ روپے تک جا پہنچی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تیس برسوں میں سب سے زیادہ ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام لاہور ، معلوماتی پروگرام کراچی اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام اسلام آباد/راولپنڈی سے پیش کیے گئے۔ پی ٹی وی کی آمدن کا 80 فیصد کراچی سینٹر سے آتا تھا جو پاکستان کا تجارتی مرکز بھی رہا ہے۔ اس دوران پی ٹی وی کو 30 کے قریب بین الاقوامی ایوارڈز بھی ملے جو زیادہ تر ڈاکومینٹری فلموں کو ملے تھے۔

اس وقت تک سیٹلائٹ کی سہولت نہیں تھی۔ ٹی وی نشریات، ٹی وی بوسٹرز کے ذریعے محدود علاقوں میں دیکھی جا سکتی تھیں۔ مختلف مقامات پر مزید بوسٹرز لگا کر ٹی وی نشریات کو پھیلایا جاتا تھا۔ بڑے شہروں میں الگ الگ ٹی وی چینل قائم کیے جاتے تھے۔ صرف دس برسوں میں پاکستان کے پانچوں دارالخلافوں یعنی وفاقی دارالحکومت راولپنڈی/اسلام آباد کے علاوہ صوبائی دارالحکومتوں ، لاہور ، کراچی ، پشاور اور کوئٹہ میں بھی ٹی وی چینل قائم ہوئے جنھیں 1975ء تک مواصلاتی رابطے سے منسلک کر دیا گیا تھا اور خبرنامہ ، پورے ملک میں ایک ساتھ دیکھا جاتا تھا . پاکستانی عوام کیلئے پی ٹی وی کے تیار کردہ ڈرامے دلچسپی کا سب سے بڑا محور تھے۔ ایسے ایسے شاہکار ڈرامے پیش کئے گئے جنہوں نے مدتوں اپنے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ 1999 کے میڈیائی انقلاب کے بعد ملک بھر میں نجی ٹیلیویژن چینلز کی بھرمار گئی جن کا دورانیہ 24 گھنٹے تک محیط تھا یوں پاکستانی قوم کے پاس دیکھنے کیلئے بےتحاشا مواد ریموٹ کنٹرول کی ایک جنبش پہ میسر ہوگیا۔ نئے چینلز نے اپنے ڈراموں اور پروگرامز میں۔مغربی تہذیب کا تڑکا لگایا جسے پرویز مشرف حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل تھی ۔ حکومتی سرپرستی میں تیار ان پروگرامز نے ملکی ثقافتی ڈھانچے کو یکسر بدل کررکھ دیا۔ پل پل نشر ہنیوالے نیوز پروگرامز ، باآواز بلند پڑھی جانیوالی خبریں ، مغربی ملاوٹ میں لتھڑے پاپ میوزیکل سٹ کامز اور محرم و نامحرم رشتوں کے تقدس کو مجروح کرتے ہوئے ڈرامے عوامی دلچسپی کا مرکز بن گئے۔ ایسے میں پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی روائیتی و ثقافتی اقدار سے کے ساتھ نئی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا لیکن آہستہ آہستہ روبہ زوال ہوتا گیا۔ میرے خیال میں پی ٹی وی حکام کو ادارے کی بدحالی کے اسباب کا حقیقی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس ادارے میں تعلیم بالغاں ، زہر زبر پیش ،  نیلام گھر ، پنجند ، میلہ ، انکل عرفی ،  وارث ، خدا کی بستی ، آنگن ٹیڑھا ، اندھیرا اجالا ، شمع ، نذرانہ ، ان کہی ، آخری چٹان ،  تنہائیاں ، آغوش ، من چلے کا سودا ، راہیں ، ہوائیں ، آنچ ، الف نون ، عینک والا جن ، پناہ ، جانگلوس ، سمندر ، نشیب ، اج دی کہانی ، شہر تے سفنے ، پچھتاوے ، الفانسو ، بابر ، سمیت سینکڑوں شہرہ آفاق ڈرامے اور پروگرام  پیش کئے گئے جن کے نشری اوقات میں سڑکیں سنسنان ہوجایا کرتی تھیں اسی پی ٹی وی کو کوئی بھی دیکھنے کو تیار نہیں ہے ۔ اب ہمارا ٹی وی ساٹھ سال کا ہوچکا ہے ۔ حکام بالا کو اب خود ہی اپنے ادارے کو جدید ٹیکنالوجیکل وسائل مہیا کرنا ہونگے۔ سٹاف کو دی جانے والی سہولتیں بڑھانا ہوں گی۔ ان کے معاوضے بڑھانا ہونگے۔ مستحق اور نادار فنکاروں کی خدمات پہ انہیں مالی وسائل دینا ہونگے ، روائیتی اقدار پہ مشتمل ڈرامے اور پروگرامز پیش کرنا ہونگے جو ہماری نظریاتی اساس کی ترجمانی کریں۔ مقابلہ بازی کے چکر میں اپنی بنیاد کبھی نہ بھولیں ۔  پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا چاہئے اور میرٹ پہ ایوارڈ کی تقسیم کی جائے  تبھی فنکار اپنے ادارے کی طرف دوبارہ رجوع کریں گے ۔ یقینی طور پہ پاکستان ٹیلی ویژن کا دور عروج جلد واپس آجائے گا ۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں