تحریر: علی حسن
بری فوج کے سربراہوں نے کھل کر چار بار پاکستان میں نظام حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ تین بار تو فوجی سربراہ دس دس سال تک حکمرانی بھی کرتے رہے لیکن ان کی لائی ہوئی تبدیلی جڑ نہیں پکڑ سکی اور ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہی ان کی متعارف کرائی ہوئی تبدیلی زمین بوس ہو گئی۔ فوجی سربراہوں نے نظام حکومت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی لیکن سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے کسی قسم کی کوشش ہی نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے فوجی سربراہوں کی نافذ کردہ تبدیلیوں کو اپنے اپنے دور میں چلنے ہی نہیں دیا۔اکتوبر کے مہینے میں پاکستان میں دو بار فوجی سربراہوں نے تبدیلی متعارف کر ائی۔ پاکستانی فوج کے پہلے مسلمان سربراہ جنرل ایوب خان نے 1958 میں تبدلی لائی جب اس وقت کے صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے ایوب خان کو ملک میں مارشل لاءنافذ کرنے کی دعوت دی۔ اس وقت ملک میں سول حکومت قائم تھی اور سیاسی طور پر منجھی ہوئی سیاسی شخصیت وزیر آعظم فیروز خان نون تھی۔ ان کی حکومت کو بر خاست کردیا گیا اور 7کتوبر کو مار شل لاءنافذ کر دیا گیا۔ اس مارشل لاءکو 27اکتوبر میں اس طرح مکمل کیا گیا کہ اسکندر مرزا کو آدھی رات کو پستول کی نوک پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا اور ملک بدر کر کے لندن بھیج دیا گیا جہاں قیام کے لئے انہیں ہوٹل پر ملازمت کرنا پڑی تھی۔ اسکندر مرزا کے مستعفی ہونے کے بعد ایوب خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے ملک میں حکومت قائم کر لی۔ ایوب خان نے نظام حکومت میں بنیادی تبدیلی یہ لائی کہ قائد آعظم کی رضا مندی سے ملک میں قائم پارلیمانی نظام کو تبدیل کر دیا گیا اور صدارتی طرز حکومت قائم کر دیا گیا۔ صدارتی طرز حکومت کو قائد آعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح جنہوں نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں قائد آعظم کا قدم قدم پر ساتھ دیا تھا، اس طرح چیلنج کر دیا تھا کہ انہوں نے ایوب خان کے مدمقابل 1964 میں صدارت کا انتخاب لڑا تھا۔ ایوب خان نے ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کیا تھا اور اس وقت کے مشرقی اور مغربی پاکستان میں برابر کے نمائندے منتخب کرائے تھے۔ دونوں صوبوں میں چالیس چالیس ہزار نمائندے تھے۔ اس طرز انتخابات میں بھی محترمہ فاطمہ جناح نے کراچی اور ڈھاکہ سے ایوب خان کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ حیدرآباد میں انہیں اور ایوب خان کو برابر برابر ووٹ ڈالے گئے تھے ۔
ایوب خان نے انتہائی انہماک سے اپنے دور کے نافذ کئے گئے اقدامات کو تحفظ دینے کے لئے 1962 میں ایک آئین بھی نافذ کردیا تھا ۔ ان کے نافذ کئے گئے نظام میں عوام کو برابر کی رائے دہی کا حق حاصل نہیں تھا ۔ بنیادی جمہوریت کے آراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے آراکین کو منتخب کرتے تھے ۔ ایوب خان کے منظور نظر جنرل ییحی خان نے ایوب خان کو 1969 میں بے دست و پا کر کے ان سے زبردستی استعفی لیا اور خود مارشل لاءنافذ کر دیا۔ ایوب کو اتنی مہلت بھی نہیں دی گئی کہ وہ اپنے ہی نافذ کردہ آئین کے تحت ملک کا اقتدار قومی اسمبلی کے ا سپیکر (اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر عبدالجبار خان تھے۔ ان کا تعلق بنگال سے تھا) کے حوالے کرنا چاہئے تھا۔ ییحی خان نے ملک میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ملک میں پہلی بار عام انتخابات کرائے لیکن ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر کرائے گئے انتخابات کے نتائج کو جنرل ییحی خان اور ساتھیوں نے خود ہی تسلیم نہیں کیا تھا ۔ اس کا خمیازہ یہ نکلا کہ بھارت نے مداخلت کر کے پاکستان پر جنگ تھونپی ، نتیجے میں پاکستان دو لخط ہو گیا۔ ایوب خان کا دور ختم ہوا۔ ییحی خان کے دور میں ملک ٹوٹ گیا۔ بھٹو دور میں ایوب خان کے دور کے اکثر اقدامات پر پانی پھیر دیا گیا۔ بھٹو دور کا خاتمہ جنرل ضیاءالحق کے نافذ کردہ مارشل لاءسے ہوا۔ اس کے بعد جنرل ضیاءکا دس سالہ دور رہا، لیکن ان کے دور میں نافذ کردہا اقدامات پر بعد کی سول حکومتوں نے پانی پھیر دیا۔ سیاست دانوں کو فوجی حکمرانوں کے نافذ کردہ اقدامات قابل قبول نہیں تھے۔ نتیجہ میں ملک ہر بار 1958 میں نافذ کردہ مارشل لاءسے قبل کے دور میں جا کر کھڑا ہو جاتا تھا۔
اکتوبر میں دوسری فوجی کارروائی 12 اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے کی ۔ وزیر آعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کی ملک سے غیر حاضری میں انہیں بر طرف کر کے فوج کے سربراہ کی تقرری کے ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر جنرل ضیا الدین بٹ کو مقرر کر دیا جس پر مشرف کے ساتھیوں نے وزیر آعظم کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔ مشرف نے بھی اپنے پیش رو جنرلوں کی طرح بلدیاتی نظام متعارف کرایا جسے ” اختیارات عوام کے دروازے پر“ کا نام دیا گیا۔ ایسی ضلعی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ضلعی حکومت کو وفاقی حکومت سے اس کے خراجات اور ترقیاتی کاموں کے لئے رقم براہ راست ملا کرتے تھی ۔ ضلعی حکومتیں صوبائی حکومتوں کے کسی طرح بھی ماتحت نہیں تھیں جسے صوبائی حکومتوں سے پسند ہی نہیں کیا بلکہ اسے منسوخ کرانے پر کاربند ہو گئے۔ صوبائی حکومتوں کو یہ بات اس لئے پسند نہیں تھی کہ بلدیاتی اداروں کے تحت ہونے والے کاموں میں آراکین صوبائی حکومت سے کسی مشاورت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب ان کا عمل دخل ہی نہیں تھا تو ترقیاتی کاموں کی رقم میں ان کا حصہ بھی کوئی نہیں تھا۔ اس ملک میں تو کمیشن کے حصوں نے ہی اس ملک کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جنرل مشرف نے ہی قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا ادارہ قائم کیا تھا، جسے ان سمیت حکمرانوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
جنرل مشرف کا ضلعی حکومتوں کو نظام اگر برقرار رہتا تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حالیہ سیلاب اور بارشوں کے بعد تنقید کا نشانہ نہیں بننا پڑتا اور لوگوں کو بھی اس بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے اور بے سہارا ہونے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسی طرح اگر احتساب کو ادارہ جس نیت سے بنایا گیا تھا اگر اس پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت ہچکولے نہٰں کھا رہی ہوتی۔ صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے صوبوں میں مظبوط قسم کا بلدیاتی نظام نافذ کرنا چاہئے جو حکومت کی کسی مداخلت کے بغیر کام کرتا رہے۔ پاکستان کے نظام میں جو سب سے بڑی خرابی پیدا کی گئی ہے ہو کسی بھی نظام کا تسلسل برقرار رکھا ہی نہیں گیا۔ آنے والی ہر حکومت نے یہ ہی سوچا کہ اگر منصوبوں کو تسلسل برقرار رکھا گیا تو جانے والی حکومتوں کو ہی نام و نمود اور شہرت ملے گی اسے اسے مٹا دینا ہی بہتر ہوگا۔ زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ وزیر آعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کے وقت سے ہی جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے دور میں پانچ نکاتی پروگرام کو 1988میں آنے والی بے نظیر مرحومہ کی حکومت نے سرے سے منسوخ کر دیا تھا۔ حد تو یہ تھا کہ جونیجو دور میں زکاة فنڈ سے بے گھر لوگوں کے لئے کواٹر تعمیر کرائے گئے تھے ۔ وہ کھڑے کھڑے منہدم ہو گئے لیکن بے نظیر حکومت اور بعد کی حکومتوں نے انہیں تقسیم نہیں کیا۔ 1988 میں بے نظیر حکومت آئی تو حکومت نے بیواﺅں میں سلائی مشین اور غریبوں میں سائیکل تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ سلائی مشینیں کہیں تقسیم ہوئیں اور کہیں دانستہ تقسیم نہیں کی گئیں۔ وجہ صرف یہ ہی تھی کہ ماضی کی حکومت کو نام ملے گا۔ اس تماش گاہ میں یہ ایسا المیہ ہے جس نے پاکستان کو بہت بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ فوجی حکومتیں ناکام ہوئیں اور سیاسی حکومتیں بھی ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ منصوبوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کا نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے سماجی حالات بدتر ہو ئے ہیں۔ رہ گئے سیاسی حالات اور نتائج ، سیاسی حکومتوں کو اس لئے غرض نہیں ہوتی کہ ان کے ذہنوں میں یہ فتور بھرا ہوا ہے کہ آئی ایم ایف تو ان کی مدد کرنے کے لئے موجود ہی ہے۔ حالانکہ سیاست اور معیشت کا تسلسل ہی کسی بھی ملک کو سماجی طور پر کامیابی کی منازل طے کراتا ہے ۔ (علی حسن)