تحریر: حامد میر۔۔
وہ کنٹینر پر چڑھا ہوا تھا کنٹینر سے اتارنے کیلئے اس پر گولیاں چلا دی گئیں۔ وہ کنٹینر سے اتر کر اپنے مخالفین کے حواس پر سوار ہوگیا ہے۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں کہا تھا کہ اگر وہ حکومت سے نکل آئے تو زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ واقعی عمران خان اپنے مخالفین کے لئے حیران کن حد تک خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ مخالفین کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک سابق کرکٹر اور پلے بوائے کا مقابلہ کیسے کریں؟ ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد انتخابات سے بھاگ رہا ہے کیونکہ فوری انتخابات ہوگئے تو عمران خان کو شکست دینا مشکل ہوگا۔ فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ پہلے عمران خان کو نااہل اور گرفتار کیا جائے، اس کی پارٹی کو توڑا جائے پھر انتخابات کرائے جائیں۔
بالکل یہی کچھ 2018ء کے انتخابات سے قبل نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ نواز شریف کو مخصوص ججوں کے ایک ٹولے نے نااہل قرار دیا پھر انہیں گرفتار کر کے انتخابات کروائے گئے اور ان انتخابات کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
اب تو شہباز شریف نے اعتراف کر لیا ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں وزارتِ عظمیٰ پیش کی تھی لیکن انہوں نے اپنے بھائی نواز شریف کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر وزیر اعظم بننے سے انکار کر دیا تھا۔
شہباز شریف کے انکار کے بعد باجوہ کے پاس عمران خان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھی اور پھر یہی عمران خان باجوہ کے لئے جوتوں کا ہار بن گیا۔آج عمران خان ان سب کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے جو بڑی آسانی کےساتھ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیتے رہے، ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکاتے رہے اور ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو نااہل قرار دلواتے رہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے سیاست دانوں کی طرح عمران خان بھی تضادات سے بھرپور شخصیت کے مالک ہیں وہ نوے دن کے اندر انتخابات کے لئے ایک عدالت کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیتے ہیں اور بار بار پیش نہ ہونے پر اپنے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی دوسری عدالت کے فیصلے کو سازش قرار دیتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ لندن میں انکی بیٹی ٹیریان اپنے دو سوتیلے بھائیوں کے ہمراہ جمائما گولڈ سمتھ کے ساتھ رہتی ہے۔ عمران خان نے اپنی اس بیٹی کو الیکشن کمیشن کےسامنے ڈیکلیئر نہیں کیا۔ مخالفین اسے خان کی ناجائز بیٹی کہتے ہیں سب جانتے ہیں کہ عمران خان نے پہلے جمائما اور پھر ریحام خان کو طلاق دیکر پانچ بچوں کی ماں بشریٰ بی بی کےساتھ شادی کی۔
سب نے عمران خان اور ایک خاتون سیاست دان کی ٹیلی فون پر ہونے والی مبینہ گفتگو سن رکھی ہے جسے مہذب ترین الفاظ میں صرف فحش گوئی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کا کوئی دوست وفات پا جائے یا کوئی کارکن مارا جائے تو وہ انکے جنازے میں شرکت نہیں کرتا بلکہ مرحومین کے ورثا کو افسوس وصول کرنے کیلئے خود عمران خان کے پاس حاضری دینی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کے کارکن اپنے اس لیڈر کیلئے جان ہتھیلی پر لئے پھر رہے ہیں۔
کیا کسی نے سوچا کہ جسے مریم نواز توشہ خانہ کا گھڑی چور قرار دیتی ہیں اس کے لئے گلگت بلتستان کی پولیس نے لاہور میں پنجاب و اسلام آباد کی پولیس پر بندوقیں کیوں تان لیں؟
آپ کو ماننا پڑے گا کہ جسے یوٹرن خان قرار دیکر اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا آج شیخ رشید احمد اور چودھری پرویز الٰہی جیسے سیاست دان اس کے ساتھ کھڑے ہیں جنہیں جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی آخری نشانیاں کہنا غلط نہ ہوگا۔
سوچئے تو سہی کہ وہ عمران خان جو پچھلے سال اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش کا نتیجہ قرار دے رہا تھا آج ایک امریکی لابنگ فرم کی مدد سے امریکی سنیٹرز کےساتھ رابطوں میں مصروف ہے اور اس کے باوجود تحریک انصاف کے کارکن جگہ جگہ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ نامنظور کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔
ایک طرف ازبکستان میں برطانیہ کا سابق سفیر کریگ مورے لاہور میں عمران خان کے گھر پر شیلنگ کی مذمت کرتا ہے اور اس کی حکومت کے خاتمے کو سی آئی اے کی سازش کہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکہ کا سابق سفیر زلمے خلیل زاد کہتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ خلیل زادنے جون 2023ء میں انتخابات کی حمایت کر دی ہے۔ خلیل زاد 1985ءسے 2020ء تک مختلف امریکی حکومتوں میں شامل رہے۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب THE ENVOYمیں سی آئی اے کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا اعتراف بھی کیا ہے۔
زلمے خلیل زاد امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود ایک طاقتور لابی کے نمائندے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اور آج وہ عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا یہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی بہت بڑی ناکامی نہیں جنہوں نے حکومت میں شامل ہونے کے بعد اپنا زیادہ وقت امریکہ میں گزارا؟
کریگ مورے سی آئی اے کا ناقد ہے۔ زلمے خلیل زاد سی آئی اے کے بہت قریب ہے دونوں مل کر عمران خان کی حمایت کریں تو کسی نہ کسی کو صرف حیران نہیں بلکہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت ہے۔
کیا پاکستانی ریاست کو کہیں سے بلیک میل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟ پاکستان میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا تعلق ایک گریٹر گیم سے نظر آ رہا ہے جو افغانستان سے یوکرائن تک پھیلی ہوئی ہے اور پاکستان کو اس گیم کا حصہ بنانے کیلئے ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار کر دیا گیا ہے۔
خطے میں جاری چین اور امریکہ کے مفادات کی اس جنگ میں پاکستان کی جمہوریت اور ایٹمی پروگرام کو بچا کر رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیا عمران خان یا ان کے سیاسی مخالفین میں وہ صلاحیت موجود ہے جس کے ذریعہ وہ پاکستان کو مشکلات کے طوفان میں سے نکال سکیں؟
توشہ خانہ کی تفصیلات پر نظر دوڑائیں تو عمران خان اور ان کے مخالفین میں کوئی فرق نہیں۔ عمران خان کی اصل طاقت انکے مخالفین کی کمزوریاں اور نااہلی ہے یہ بڑی اور چھوٹی برائی کی لڑائی ہے۔ آنے والے وقت میں عمران خان کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی کا کھیل چلتا رہے گا۔ انتخابات جب بھی ہوئے انہیں حکومت میں واپسی سے روکا جائے گا کیونکہ وہ قومی مفاد کیلئے خطرہ قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ مریم نواز یا بلاول بھٹو زرداری کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ عمران خان نااہلی اور گرفتاری کے بعد بھی مخالفین کو حیران و پریشان کرتے رہیں گے۔ عمران خان کوئی بھوت نہیں بلکہ ایک سزا ہے۔ پاکستان ایک سیاسی و جمہوری عمل کی پیداوار تھا لیکن پچھتر سال سے اس ملک میں سیاسی و جمہوری اداروں کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ عمران خان سازش کرنے والوں اور ان کے حواریوں کے گناہوں کی سزا ہے یہ سزا تو بھگتنا پڑے گی۔(بشکریہ جنگ)