تحریر: فاطمہ یاسین۔۔
پاکستان کرہ ارض کا وہ خطہ ہے جس کے لئے ماؤں نے اپنے لخت جگر قربان کردئے کہ جس کی خاطر بہنوں نے اپنی عصمتیں لٹا ڈالیں کہ جس کے حصول کی خاطر خون کی ندیاں بہائیں گیئں،کہ جس وطن کی خاطر راتوں کو اٹھ کر دعائیں مانگی گئی۔یہ وہ وطن ہے کہ جس نے ہمیں آزادی دی زندگی کو ایک نئے رخ سے جینے کا ہنر دیا،سوچوں کو ایک نئے زاویے سے وابستگی دی۔مگر افسوس صد افسوس اس وطن کی ہم نے قدر نہ کی،یہ وہ وطن تو نہیں رہا کہ جو ہمارے قائد اعظم نے ہمیں انگریزوں کی غلامی سے بچنے کے لیے آزادی حاصل کر کے دلایا تھا کہ جس کی حفاظت کا ہم نے ذمہ لیا تھا۔کہ پاکستان کو ناگزیر ہم نے خود کیا اسے دشمنوں کے سپرد کر کے،اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے،سے ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف لے کر جاتے ہوئے ہم یہ منظر بھول بیٹھے کے اس وطن کی خاطر ہم نے وہ تاریخی نعرے لگائے تھے کہ لے کر رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان جب ایک مسلمان کے سینے کو نیزے سے چھلنی کیا جا رہا تھا تو وہ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا تھا کہ لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان ان اور اس کی دلخراش آواز ہمارے دشمنوں کو للکار رہی تھی کہ بقول اقبال
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت،نہ کشور کشائی
لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ پاکستان تو نہیں کہ جو ہمارے بڑوں سے ہمیں ورثے میں ہمیں ملا تھا بلکہ یہ تو تباہ حال پاکستان ہے،یہ بنجر زمین مین خشک دریا تپتے صحرا قتل و غارت کی اندھا دھند تقلید معصوم بچوں کا ریپ ماؤں بہنوں کی غیر محفوظ عزتیں کہ جب ملک کے نگہبان ہی ملک کے لٹیرے بن جائیں تو گلہ شکوا کس سے کریں کہ جب وطن کے امین ہیں وطن کے ساتھ خیانت کریں تو کس سے کیا کہیں،کہ جب ہر طرف لوٹ مار کی فضا ہو،غریبوں کو کو ستایا جاتا ہوں،مفلسی کے ڈیرے ہو،بے گناہ کو مجرم ٹھہرا کر ہکٹہرے میں لایا جائے،تو پھر کیسے پاکستان ناگزیر نہ ہو تباہ نہ ہو برباد نہ ہو
خزاں بہار کا جھگڑا کھڑا نہ ہونے دیا
شجر لگایا بھی خود، خود ہرا نہ ہونے دیا۔
(اتباف براک)
میرا پاکستان تو وہ تھا کہ جہاں روشنی کا سورج ظلمت شب کے اندھیرے کو روندھتا ہوا اُبھرتا تھا۔ مگر آج یہاں اندھیرے کا راج ہے ۔ ظلم وجبل ، قتل وغارت ، بے بسی ، صف ماتم کی صورت میں چھا ئی نظر آتی ہے تو کیسے پاکستان کو ناگزیر نہ کہوں میں۔
کہ میرا ملک تو باغ ہے اور ہم اس میں کھلنے والے پھول پودے۔ لیکن ہم نے اس باغ کو اُجاڑ کر دیا تو کیسے تو کیسے پاکستان نا گزیر نہ ہو کہ میرا ملک تو جنّت ہے اور ہم اس کا حسن لیکن ہم نے تو اس جنّت کو جہنّم بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو پھر کیسے پاکستان نا گزیر نہ ہو۔ ہمارا وطن تو ہمارے لیے فخر کا باعث ہونا چاہیے۔ لیکن ہم نے اسے سنوارا نہیں ، نکھارا نہیں ، اس کے درد سیتے وجود کو سنبھالا نہیں، اسے مزید پامال کیا تو کیسے پاکستان ناگزیر نہ ہو۔
فقط اس جرم میں کہلائے گنہگار کہ ہم
بحرِ ناموسِ وطن،جامہ تن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے لیکن
ہم تو اہلِ وطن دردِ وطن مانگتے ہیں.
(احمد ندیم قاسمی)
آخر کیوں میرا وطن نا گزیر رہا ہے کہ اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے غداروں کی صورت میں ایسے لوگ ملے کہ جو اس وطن کی مٹی کا قرض نہ چکا سکے ۔ اس وطن کا حق نہ ادا کر سکے کہ قائد نے جس حصول کے تحت مسلمان قوم کو آذادی پاکستان کی صورت میں پاکستان کا تحفہ دیا تھا۔ تو پھر کیسے پاکستان ناگزیر نہ ہو کہ جب اپنے ہی لوگ لٹیرے ہو تو حفاظت کی اُمید کس سے کریں۔
ہم نے اپنے قائد سے کیے ہوئے ہوئے عہد کو یکسر فراموش کر دیا اپنے وطن کو کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کیا اس زمین کے ٹکڑے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے تو کیسے پاکستان ناگزیر نہ ہو کہ جو بھی آتا گیا،میرے وطن کو یتیم سمجھ کر اس کو لوٹتا چلا گیا،پاکستان کو ناگزیر کرتا چلا گیا سوائے چند لوگوں کے حکومت میں کوئی اس وطن سے وفا نہ نبھا سکا کہ پاکستان ناگزیر تھا،اور ناگزیر رہے گا۔
خدا سے دعا ہے کہ میرے وطن کو مزید تباہی سے ناگزیری سے بچا لے کہ اور اس کی جڑوں کو مضبوط کر دے۔
خدا کرے کہ میرے ارض وطن پر اترے وہ فصل کل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو(فاطمہ یاسین)۔۔
13