wafaqi secretary ittelaat ptv ki MD ban gyin

پاکستان میں ٹی وی کا آغاز

تحریر: سرورمنیر راؤ۔۔

پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز 59 سال قبل 26 نومبر1964 میں ہوا۔حسن اتفاق ہے کہ اقوام متحدہ نے ٹیلی ویژن کا عالمی دن منانے کے لیے نومبر کی 21 تاریخ کا تعین کیا ہے۔ ٹیلی ویژن کی ایجاد کی کہانی تحیر انگیز ہے۔

ٹیلی ویژن آواز ، تصویر اور روشنی کے امتزاج کا نام ہے۔ٹیلی گراف، ریڈیو اور فلم کی ایجاد نے ٹیلی ویژن کی راہ ہموار کی۔ ٹیلی اور ویژن دو لفظ ہیں۔ٹیلی رومن لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’دور‘‘ جب کہ ’’ ویژن‘‘ انگریزی لفظ ہے جس کا مطلب ’’دیکھنا‘‘۔اس طرح ٹیلی ویژن کا مطلب دور سے دیکھنا یا ’’دور درشن‘‘ ہے۔ٹیلی ویژن کی ابتدا 1930کی دہائی میں ہوئی۔ 1950 کی دہائی میں امریکا اور یورپ میں ٹیلی ویژن کی ترقی اور ترویج میں تیزی آئی۔ 1960 کی دہائی اس کے پھیلاؤ کی دہائی ہے۔پاکستان میں ٹیلی ویژن کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا لفظ تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرا کی زبان سے سنا گیا، وہ امریکا میں دو مرتبہ پاکستان کے سفیر رہے تھے،انھوں نے ایک نجی محفل میں ٹیلی ویژن کا تذکرہ کیا۔

جنرل محمد ایوب خان کے دور میں تعلیمی اصلاحات کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے باضابطہ طور پر پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ٹیلی ویژن کے آغاز کی سفارش کی۔ اکتوبر 1963 میں ٹیلی ویژن نیٹ ورک شروع کرنے کے احکامات جاری ہوئے اور 26 نومبر 1964 کو پاکستان کے پہلے ٹیلی ویژن مرکز کا لاہور میں ایوب خان نے افتتاح کیا۔ابتدائی دفاتر لاہور آرٹس کونسل کی پرانی عمارت کے لان میں ٹینٹ لگا کر قائم کیے گئے۔کچھ عرصہ بعد ریڈیو پاکستان لاہور کی کینٹین میں پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت کے ساتھ خالی پلاٹ پر ملک کے پہلے ٹیلی ویڑن سینٹر کی عمارت بھی تعمیر ہوئی۔اس وقت ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں پاکستان ٹیلی ویژن کے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹوڈیوز اور عمارتیں ہیں، یہ ادارہ ہزاروں افراد کو ملازمت دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تمام نجی ٹی وی چینلز میں ’’مدر چینل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی نشریات کا آغاز پونے چار بجے شام ہوا ۔تلاوت کلام کے بعد صدر جنرل محمد ایوب خان نے افتتاحی تقریر کی۔ شام7 بجے اردو خبریں نشر ہوئیں اور رات نو بجے ٹرانسمیشن قومی ترانے کے ساتھ ختم ہوئی۔ ابتدا میں پاکستان ٹیلی ویڑن کی نشریات ہفتے میں چھ دن، صرف پانچ گھنٹے کے لیے ہوتی تھیں جب کہ سوموار کے دن ٹی وی نشریات نہیں ہوا کرتی تھیں۔ابتدائی ایام میں اردو اور انگریزی خبروں کے حصول کے لیے کوئی نیوز ایجنسی نہ تھی تازہ ترین خبریں دنیا بھر کے ریڈیو مانیٹر کر کے حاصل کی جاتی تھیں۔ پی ٹی وی کے پاس صرف دو اسٹوڈیو کیمرے تھے، بیرونی فلم بندی کے لیے کوئی فیلڈ کیمرہ نہ تھا بعد ازاں چابی سے چلنے والے دو کیمرے لیے گئے جن میں 100 فٹ فلم کا رول آتا تھا۔

فلم بندی کے بعد نیگٹیو فلم کو ایک پرائیویٹ لیبارٹری میں دھلوایا جاتا تھا اور پھر ’’ ٹیلی سینی‘‘ برقی الے کے ذریعے اسے پوزیٹو بنا کر ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا۔ کئی سال تک پی ٹی وی کے مراکز سے پانچ گھنٹوں کے دوران کل 20 منٹ کی خبریں پیش کی جاتی تھیں۔مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ( لاہور اور ڈھاکا ) ٹیلی ویژن کے درمیان ٹیلکس، ٹیلی پرنٹر اور ٹیلی فون کنیکشنز قابل اعتماد اور تیز رفتار نہ تھے، اس لیے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان نیوز فلموں کو ہوائی جہاز کے ذریعے بھیجا جاتا تھا اور دوسرے دن ان کی نشریات ممکن ہوتی تھیں۔ 1970 میں پہلی بار 25 منٹ کا خبرنامہ کراچی مرکز سے شروع کیا گیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1975 میں جب مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو مائیکرو ویو اور بوسٹرز کے ذریعے قومی نشریاتی رابطے سے منسلک کیا گیا تو راولپنڈی اور اسلام آباد ٹیلی ویڑن سینٹر سے خبریں بیک وقت پورے ملک میں نشر ہونے لگیں، ہر صوبائی دارالحکومت کے ٹی وی مرکز سے مقامی خبروں کا اغاز بھی ہوا۔

صبح کی روزانہ نشریات کا باقاعدہ آغاز پہلی بار 1989 میں ہوا جب کہ جولائی 2002 سے پی ٹی وی نے ہفتے میں ساتوں دن 24 گھنٹے کی نشریات شروع کی اور ہر گھنٹے کے آغاز پر نیوز بلٹن نشر کیا جانے لگا۔ نیوز اور کرنٹ افیئرز کے لیے ایک الگ ٹی وی چینل بھی بنایا گیا۔اب جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن 60 سال کا ہونے کو ہے اگر اس کی کارکردگی کا اختصار سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی کی پہلی دہائی کو گولڈن پیریڈ کہا جا سکتا ہے۔دوسری دہائی پی ٹی وی کی ٹیکنیکی اور پیشہ ورانہ ترقی سے عبارت ہے۔ تیسری دہائی گلیمر اور میلو ڈرامہ یعنی رومان اور جذباتیت کی دھائی شمار کی جا سکتی ہے۔ جب کہ چوتھی دہائی میں پی ٹی وی کی اجارہ داری بتدریج ختم ہونے لگی اور نجی چینلز مقابلے میں آنا شروع ہوئے۔ اور اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پی ٹی وی کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت سے مالی مدد لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

ان تمام عوامل کے باوجود سرکاری ٹی وی ہر ملک کی ضرورت ہے، اسے حکومت وقت اور ریاست کا ترجمان بھی سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری ٹی وی کو قومی ٹیلی ویژن کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کی کارکردگی کا موازنہ نجی ٹی وی چینلز کی پالیسیوں اور ابلاغی اقدار سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی کارکردگی اور تخلیقی صلاحیتوں کا دائرہ حکومت وقت کی پالیسیوں کے گرد گھومتا ہے اور ان کا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں