تحریر: جواد احمد ترک۔۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کی حالت ابتر نہیں بلکہ بدتر ہے برصغیر پاک وہند میں میٹرک کا پہلا امتحان 1858 میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے اچھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس پاسنگ ماس 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32.5 ہوں گے دو سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کے لئے سے 33 فیصد کر دیا گیا اور ہم 2020 میں بھی انہی 33 فیصد نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت تلاش کرنے میں مصروف ہیں جاپان کی مثال لیتے ہیں وہاں تیسری کلاس تک بچوں کو ایک ہی مضمون پڑھایا جاتا ہے اور وہ اخلاقیات اور ادب ہے مولا علی کا قول ہے “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں” مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے بھی بے مذہب لوگ حضرت علی کے قول پر کیوں عمل کر رہے ہیں جاپان میں اساتذہ کی عزت اس قدر ہے کہ وہاں اساتذہ کے لیے عدالت میں ججز تک کھڑے ہو جاتے ہیں جس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے اور وہ اساتذہ واقعی اساتذہ ہیں نہ کہ کاروباری جاپان میں معاشرتی علوم نہیں پڑھائی جاتی بلکہ اس پر عمل کروایا جاتا ہے بچے اور اساتذہ مل کر سکول کو صاف کرتے ہیں دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام دیکھی تو وہ صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے ہمارے بچے پبلشر بن چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کر کے لکھ دیتے ہیں اور بچے اسے اپنی کاپیوں پر نقل کرکے لکھتے ہیں اس طرح وقت کا زیاں ہوتا ہے اور حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا اسی چھپے ہوئے نقل شدہ مواد کو امتحان میں اساتذہ دیتے ہیں خود ہی اہم سوال پر نشان لگاتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کرکے کے نمبر بھی دے دیتے ہیں بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی کرتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر اپنی بچے کے ذہین اور قابل ہونے کی گن گاتے ہیں اس کے برخلاف جن کے بچے فیل ہو جاتے ہیں وہ ان پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو کوڑھ مغز اور نالائق کا طعنہ دیتے رہتے ہیں آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا سوائے چھاپنے کے عملی مہارت کیا سیکھی ہم چودہ سال تک بچوں کو لائن میں کھڑا کرکے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہو کر لائن توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں جو جتنے بڑے سکول میں پڑھا ہوتا ہے قطار کو توڑ کر اپنا کام اتنی جلدی کرواتا ہے ہم پہلی سے لے کر دسویں تک اپنے بچوں کو معاشرتی علوم پڑھاتے ہیں ہمارے معاشرے میں جو ہو رہا ہے وہ یہ جانچنے کے لیے بہت ہے کہ یہاں معاشرتی علوم عملی طور پر کتنی سیکھی ہم نے پاکستان میں بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے بچپن سے ہم بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ تم نے کسی اچھی جگہ نوکری کرنی ہے ہم اپنے بچوں کو اس لئے تعلیم دے رہے ہیں کہ وہ کسی سرکاری یا کسی اچھے ادارے میں نوکری کرے گا ہمیں تعلیم نہیں کاغذ کی ڈگری چاہیے یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل صرف نوکریاں مانگتے ہیں ان میں کاروبار کرنے کی نہ تو کوئی عملی صلاحیت ہوتی ہے اور اگر صلاحیت ہے بھی تو ان کا رجحان اس طرف نہیں جاتا کیونکہ بچپن سے ہی ان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی ہوتی ہے کہ تم نے صرف نوکری کرنی ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے مقابلے میں تعلیمی میدان میں پچاس سے ساٹھ برس پیچھے ہے یہ ایک نہایت افسوس کی بات ہے اور سوچنے کی بات ہے کہ ہم نے ابھی تک اس پر کوئی عملی کام نہیں کیا اور نہ ہی کوئی آواز بلند کی ہے اور نہ ہی کوئی افسوس کیا ہے پاکستان کی دنیا کی سو بہترین یونیورسٹی میں پہلے تو کوئی یونیورسٹی شامل ہو جاتی تھی مگر برسوں سے ایسا ناممکن ہے یہاں پہلی یونیورسٹی 1882میں قائم تو ہوگئی تھی مگر صرف کلرکوں کی پیداوار کے لیے پاکستان کے وسائل دنیا کے بیشتر ممالک مثلا بھارت ایران بھوٹان نیپال بنگلہ دیش افغانستان وغیرہ سے کہیں زیادہ ہیں اگر اس میں اعلی ذہانت کے حامل لوگوں کو ایک عملی میدان فراہم کیا جائے جس میں وہ عملی صلاحیت نہیں دکھا سکیں تو ہم بہت تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے وسائل کو بروئے کار بھی لا سکتے ہیں ہمارے ارد گرد ایسے ممالک موجود ہیں جو کل تک ہمارے سے بہت پیچھے تھے لیکن اس وقت کہیں آگے نکل چکے ہیں ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام برسوں سے چلا آرہا ہے اسے وقت کے ساتھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ہمیں اپنی قومی زبان میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ جس سے بچے کی عملی صلاحیتوں تو کو بہتر کیا جا سکے نہ کے بس نمبروں کی دوڑ میں میں پڑے رہنا چاہیے ہم عملی طور پر کیا ہیں سوچنے کی بات ہے اس فرسودہ تعلیم کے بوجھ تلے ہمارے طلباء و طالبات 90 فیصد نمبر تو لے لیتے ہیں مگر عملی طور پر انہوں نے 30فیصد بھی نہیں سیکھا دنیا میں روز کا کام اسی دن کروا کر اسی دن امتحان لے کر اسی دن اسے ختم کردیا جاتا ہے عملی طور پر اسے سکھانے کے لیے وقت مل جاتا ہے اس طرح طلباء گھر جاکر ذہنی اذیت کا شکار بھی نہیں ہوتے اور وہ کھیل کود کے جسمانی طور پر بھی مضبوط رہتے ہیں اور عملی طور پر تعلیمی میدان میں بھی مگر ہمارے ہاں طلباء و طالبات نمبروں کی دوڑ میں رہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال بعد یا چھ ماہ بعد امتحان کروایا جاتا ہے اور ایک سال بعد یا چھ ماہ بعد ان امتحانوں کو پاس کرنے اور نمبروں کے لئے آٹا لگا کر یا نقل لگائی جاتی ہمارے ہاں سارا دن بچوں کو سائنس کے رٹے تو لگوائے جاتے ہیں مگر عملی میدان میں کوئی ایسا سائنسدان ہم نے پیدا نہیں کیا جو ہمارا نام روشن کر سکے اور ہمارے تعلیمی نظام کا نام بھی روشن کر سکے ہم صرف پڑھ کر چھاپ کر نمبر لینے کے لیے پڑھتے ہیں میری حکومت وقت سے اپیل ہے کہ پاکستان میں چلنے والے چھ سے 7 تعلیمی نظام کو ختم کر کے جس میں مدرسوں پرائمری سکولوں اور برینڈیڈ سکول اور سرکاری اسکول اور دہی اسکول ان سب کا یکساں تعلیمی نظام رائج ہو اور وہ بھی اپنی قومی زبان میں جس کو یہ پڑھ کر عملی طور پر بھی کچھ کرنے کے قابل ہوں اور عملی میدان میں آنے والی زندگی میں کچھ کر سکیں اب اس فرسودہ تعلیمی نظام کو دفنانے کی ضرورت ہے ہے اور یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کی ضرورت ہے جو پورے پاکستان میں تمام طلباء و طالبات کو پڑھایا جائے ناکہ انگریزوں کی بوٹ چاٹ کر کلرکوں کی پیداوار پیدا کرنے والے موجودہ تعلیمی نظام کی ہمیں ضرورت ہے اب تعلیمی نظام کو انقلاب کی ضرورت ہے۔۔(جواد احمد ترک)۔۔