پاکستان میں میڈیا سنسرشپ

خصوصی رپورٹ۔۔

پاکستان میں میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ہی ایک اہم اور پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ یہاں میڈیا نے جہاں عوام کو معلومات فراہم کرنے، حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے اور عوامی رائے کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں اسے سنسرشپ اور دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ مضمون پاکستان میں میڈیا سنسرشپ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔

تاریخی پس منظر:

پاکستان میں میڈیا سنسرشپ کی تاریخ پرانی ہے۔ آزادی کے بعد سے مختلف حکومتوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور عوامی رائے کو کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963ء نافذ کیا گیا جس نے میڈیا کی آزادی کو محدود کر دیا۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی سخت سنسرشپ نافذ کی گئی اور متعدد اخبارات اور صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

موجودہ صورتحال:

حالیہ سالوں میں میڈیا سنسرشپ کے مختلف طریقے سامنے آئے ہیں۔ ان میں قانونی اقدامات، مالی دباؤ، صحافیوں پر حملے اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔

قانونی اقدامات: حکومت مختلف قوانین اور ضوابط کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کے قوانین اور سائبر کرائم قوانین کے تحت میڈیا کی آزادی کو محدود کیا گیا ہے۔ ان قوانین کے تحت غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ، قومی سلامتی کے خلاف مواد، اور مذہبی نفرت انگیزی جیسے موضوعات پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

مالی دباؤ: میڈیا ہاؤسز کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حکومت کے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ حکومتی اشتہارات کا بڑا حصہ سرکاری میڈیا کو دیا جاتا ہے، جبکہ نجی میڈیا ہاؤسز کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صحافیوں پر حملے: پاکستان میں صحافیوں پر حملے اور ہراساں کرنے کے واقعات بھی عام ہیں۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود سنسرشپ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

میڈیا سنسرشپ کے متعدد منفی اثرات ہیں:

آزادی رائے کی پامالی: سنسرشپ آزادی رائے کو محدود کرتی ہے، جس کی وجہ سے عوام کو مکمل اور درست معلومات تک رسائی نہیں ملتی۔

جمہوریت کی کمزوری: آزاد میڈیا جمہوریت کی بنیاد ہے۔ سنسرشپ کی وجہ سے حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور جمہوری اداروں کی فعالیت کمزور ہوتی ہے۔

خود سنسرشپ: سنسرشپ کے دباؤ کی وجہ سے صحافی اور میڈیا ہاؤسز خود ہی اپنے مواد کو سنسر کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے معروضی رپورٹنگ ممکن نہیں رہتی۔

حل اور تجاویز:

میڈیا سنسرشپ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

قانونی اصلاحات: قوانین میں اصلاحات کی جائیں تاکہ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے۔ خاص طور پر، پریس اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے آئینی ضمانتیں دی جائیں۔

صحافیوں کی حفاظت: صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات کیے جائیں۔ ان پر حملے کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔

مالی معاونت: آزاد میڈیا ہاؤسز کو مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ حکومتی دباؤ کے بغیر کام کر سکیں۔

عوامی شعور: عوام کو میڈیا کی آزادی اور اس کے حقوق کے بارے میں شعور دیا جائے تاکہ وہ میڈیا کی حمایت کریں اور اس کی آزادی کے تحفظ کے لیے آواز بلند کریں۔

نتیجہ:

پاکستان میں میڈیا سنسرشپ ایک سنگین مسئلہ ہے جو آزادی رائے اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانونی، مالی اور سماجی سطح پر جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک آزاد اور معروضی میڈیا کے ذریعے عوام کو درست معلومات فراہم کر سکیں گے اور جمہوریت کو مضبوط بنا سکیں گے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں