charsio ka sheher

پاکستان میں بادشاہت کا راج

تحریر: جاوید چودھری۔۔

بادشاہت اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ بادشاہت میں سلطنت کے تمام وسائل شاہی خاندان کے لیے ہوتے ہیں جب کہ جمہوریت میں عوام سسٹم چلانے اور اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی کے حکمران لے آتے ہیں‘ حکمران آتے ہیں اور خود کو عوام کے لیے وقف کر دیتے ہیں‘ اس دوران اگر عوام کو ان سے بہتر شخص مل جائے تو یہ پہلے لوگوں کو فیئرویل دے کر اسے کرسی پر بیٹھا دیتے تھے‘ بادشاہ تاحیات ہوتا ہے جب کہ صدر اور وزیراعظم مخصوص مدت کے لیے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.

لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہے نہیں‘ اس ملک میں آج بھی بادشاہت قائم ہے اور ان بادشاہوں نے مغل بادشاہوں کی طرح عوام کو اپنی خدمت پر لگا رکھا ہے‘ آپ ملک کے معاشی حالات دیکھ لیجیے‘ ہم آج بھی ڈیفالٹ کے کنارے کھڑے ہیں اور اگر خدانخواستہ ہم ڈیفالٹ کر گئے تو ہم دنیا میں پہلی ڈیفالٹ نیوکلیئر پاور ہوں گے اور اس کے بعد ہمیں بم دے کر آٹا لینا پڑے گا اور اگر ایک بار ہم سے ایٹم بم نکل گیا تو پھر نریندر مودی ہمارے ساتھ وہ سلوک کرے گا جس کا سوچ کر بھی سوچ کو پسینہ آ جاتا ہے لیکن بادشاہت ملاحظہ کیجیے۔

ان حالات میں بھی حکومت نے حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ کر دیا‘ ایوان صدر کا بجٹ بھی ایک ارب گیارہ کروڑ روپے بڑھا دیا گیا جب کہ وزیراعظم ہاؤس کے لیے 31 کروڑ32 لاکھ روپے کا اضافہ کر دیا گیا‘ آج بھی وفاق میں 17 ایسی وزارتیں اور محکمے موجود ہیں جن کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں اور یہ محکمے اور یہ وزارتیں ہر سال کھربوں روپے چوس جاتی ہیں‘یہ جونکیں ہیں اور حکومت نے ان جونکوں کے لیے تنخواہ دار طبقے کو مکمل تباہ کر دیا‘تنخواہ دار 35 فیصد تک ٹیکس دیتے تھے‘ اس ٹیکس کو اب دونوں کانوں سے پکڑ کر 70 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے‘ آپ اگر بجٹ کا ڈاکومنٹ پڑھیں تو اس میں آپ کو ’’رننگ آف دی سول گورنمنٹ‘‘ کے سامنے 839 ارب روپے لکھا ملے گا‘ یہ رقم پچھلے سال 714ارب روپے تھی گویا اس میں بھی 14فیصد اضافہ کر دیا گیا‘ وفاقی حکومت میں 36 وزارتیں‘ چار درجن ڈویژن اور 400 منسلک ادارے ہیں‘ ہم نے 2014 میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد 17 وزارتیں صوبوں کے حوالے کر دی تھیں۔

اس کے بعد اصولی طور پر وفاق سے 17 وزارتیں اور ان سے منسلک ادارے اور ڈویژنز ختم ہو جانی چاہیے تھیں لیکن دس سال گزرنے کے باوجود یہ آج بھی قائم ہیں‘ حکومت صرف ان کو بند کر کے سول گورنمنٹ کے اخراجات کو 839 ارب سے 439 ارب روپے پر لا سکتی ہے مگر یہ کام نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ سیدھی بات ہے حکومت اگر یہ کرے گی تو پھر یہ اعظم نذیر تارڑ‘ عطاء تارڑ اور رانا تنویر کو کہاں کھپائے گی؟ وفاقی حکومت کے 20 اضافی وزراء کیا کریں گے؟ چناں چہ حکومت اپنی انا کی تسکین اور اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے لیے ہر سال چار سو ارب روپے بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔

حکومت بار بار دعویٰ کرتی ہے‘ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور ہمارے پاس اگر ٹیکس جمع نہیں ہو گا تو ہم عوام کی خدمت کیسے کر سکیں گے وغیرہ وغیرہ جب کہ حقیقت یہ ہے 2010سے لے کر 2024 تک گزشتہ 14برسوں میں ٹیکس کولیکشن میں 973 فیصد اضافہ ہوا‘ 2010 میں ہرپاکستانی خاندان 54 ہزار روپے سالانہ حکومت کو دیتا تھا ‘ یہ اب ہر سال ساڑھے چار لاکھ روپے حکومت کو ادا کر رہا ہے اور اس کے باوجود حکومت کی تسکین نہیں ہو رہی‘ ہم ہر سال ہزار ارب روپے سے زیادہ رقم200 بیمار کارپوریشنز میں جھونک دیتے ہیں‘ آخر اس ملک کو پی ٹی وی‘ پی آئی اے‘پی ایس او‘ اسٹیل مل‘ پاکستان ریلوے اورسوئی سدرن اور ناردرن کی کیا ضرورت ہے؟اگر زراعت کے محکمے صوبوں کے پاس ہیں تو ہم نے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کیوں بنا رکھی ہے اور یہ اربوں روپے سالانہ کیوں ضایع کرتی ہے؟۔

ہمیں ماننا پڑے گا دنیا میں بادشاہت ختم ہو چکی ہے‘ امریکا میں اگر فرشتہ بھی صدر بن جائے تو وہ بھی دو ٹرمز کے بعد گھر چلا جائے گا اور لوگ اس کی شکل اور نام تک بھول جائیں گے‘ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر جیسی وزیراعظم بھی گوشہ گم نامی میں فوت ہو جاتی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی بادشاہت قائم ہے اور ان بادشاہوں نے آپس میں صوبے تقسیم کر رکھے ہیں‘ یہ عوام کا خون نچوڑتے ہیں اور پھر اسے اپنے خاندان اوراپنے دوست احباب میں تقسیم کردیتے ہیں‘ آپ آج وفاقی کابینہ کی فہرست نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو چار پانچ لوگوں کے علاوہ کوئی شخص کسی وزارت کا ایکسپرٹ نہیں ملے گا۔

یہ تمام لوگ جہاں پناہ کے خاندان کے وفادار اور خوشامدی ہیں اور یہ صرف اس کوالی فکیشن کی وجہ سے مغلیہ خاندان کی تمام سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں ورنہ کیا یہ حقیقت نہیں اٹک کے پل سے لے کر لاہور تک ن لیگ کی صرف ایک سیٹ تھی اور وہ بھی احسن اقبال نے جیتی تھی‘ باقی سب فارم 47 ہیں اور اس فارم نے بھی عمران خان کی ضد سے جنم لیا‘ اگر یہ اتنے ضدی نہ ہوتے تو آج ان لوگوں کا نام تک مٹ چکا ہوتا‘ بہرحال ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا ہم عوام نے حکومت رکھی ہوئی ہے یا پھر حکومت نے ہم عوام کو اپنی خدمت کے لیے رکھا ہوا ہے‘ہم عوام سارا دن گھڑے پلائیں گے اور بادشاہ سلامت ٹھنڈا پانی پئیں گے اگر ایسا ہے تو پھر مبارک ہو‘ ہم کام یاب ہو چکے ہیں ۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں