جس معاشرے کی بنیاد نا انصافی پر رکھی گئی ہو وہاں انصاف کیسے؟ کلیم اور پرمٹ نے نا انصافی کے بیج بوئے. مقام فکر ہے کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے اور اس سال 829 افراد کو سول اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت کی آبادی1 ارب 40 کروڑ سے زائد ہے وہاں صرف 132 افراد کو سول ایوارڈز دیئے گئے ہیں، پاکستان اتنے ذہین ترین افراد کی موجودگی میں ترقی کیوں نہیں کر رہا؟سینئر تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس نے”عجیب تلخ سچائیاں ” بیان کر دیں ۔جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان “ایوارڈز کا دھندہ” میں انہوں نے لکھا کہ ہم بد قسمت لوگ ہیں، ہم تاریخ اور معاشرے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اور نہ ہی ایوارڈز کے ساتھ انصاف کر سکے بلکہ ایک بزرگ دوست کا کہنا ہے کہ جس معاشرے کی بنیاد نا انصافی پر رکھی گئی ہو وہاں انصاف کیسے؟ پاکستان قائم ہوا تو ابتدائی دنوں میں کلیم کا چکر چلنے لگا، کلیم کے چکر میں “پودینے کے باغات” والوں کو لمبی چوڑی زمینیں الاٹ کر دی گئیں پھر پرمٹ کا کھیل شروع ہوا، کلیم اور پرمٹ نے نا انصافی کے بیج بوئے۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی سو قیام پاکستان کے بعد کچھ سالوں تک 23مارچ یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا رہا پھر جنرل سکندر مرزا آ گئے تو پہلی مرتبہ سوال اٹھا کہ اب یوم جمہوریہ کا کیا کیا جائے؟ بیوروکریٹس کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں، ایک سینئر بیوروکریٹ نے راستہ نکالا کہ اب 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی بجائے یوم قرارداد پاکستان منایا جائے، اسی راستے پر چلتے ہوئے کچھ عرصہ بعد مزید نکھار لایا گیا اور 23 مارچ کو یوم پاکستان بنا دیا گیا۔ عجیب تلخ سچائیاں ہیں کہ 1955ء تک سرکاری سطح پر نصابی حساب سے یوم آزادی 15 اگست کو منایا جاتا رہا پھر کسی دانشور بیوروکریٹ کو یہ سوجھی کہ 15 اگست کو تو ہندوستان والے یوم آزادی مناتے ہیں سو ہمیں اپنی تاریخ 14 اگست کر لینی چاہئے، بس پھر ہمارا یوم آزادی 14 اگست بن گیا۔ 1960ء تک سرکاری نصاب میں پڑھایا جاتا رہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ٹھٹھہ کے قریب ایک قصبے جھرک میں پیدا ہوئے مگر پھر 60ء کی دہائی کی ابتداء میں حیدرآباد کے اردو بولنے والے ایک کمشنر نے قائد اعظم کا جائے پیدائش کراچی بنا دیا، بس پھر نصابی طور پر سرکاری بات مان لی گئی اور قائد اعظم کا جائے پیدائش کراچی قرار پایا۔ عرصہ ہوا، 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے، اس روز توپوں کی سلامی اور پاک افواج کی پریڈ ہوتی ہے، اسی روز دوپہر کے بعد ایوان صدر میں تقسیمِ ایوارڈز کی تقریب سجتی ہے، اسی طرح کی تقریبات تمام صوبوں کے گورنر ہاؤسز میں ہوتی ہیں، کبھی یہ ایوارڈز معتبر ہوا کرتے تھے مگر گزشتہ بیس پچیس سالوں سے ان ایوارڈز کی ایسی بندر بانٹ ہوئی ہے کہ یہ بے حیثیت سے ہو کر رہ گئے ہیں، اس دوران جن شخصیات کو ایوارڈز سے نوازا گیا، میں ان شخصیات پر تبصرہ نہیں کروں گا، نہ ان کی کارکردگی پہ بات کروں گا اور نہ ہی ان کی ناقابلِ فراموش “خدمات” کا تذکرہ کروں گا، یہ سب کچھ قوم کے سامنے ہے کس طرح سیاسی جماعتیں اپنے ورکرز اور خدمت گاروں کو قومی اعزازات سے نواز کر ان اعزازات کی بے توقیری کا باعث بن رہی ہیں۔کالم میں مظہر برلاس نے مزید لکھا کہ مجھے کچھ واقعات یاد آ رہے ہیں، پندرہ سال پہلے آصف علی زرداری صدر تھے اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم، مجھے کسی نے کہا کہ آپ فلاں ایوارڈ کے لئے اپلائی کریں اور اپنے کاغذات کے 2 سیٹ دے دیں، میں نے عرض کیا کہ میں ایسے عمل پر لعنت بھیجتا ہوں کہ مجھے کسی ایوارڈ کے لئے درخواست دینا پڑے پھر ایک مرتبہ یہ قصہ عمران خان کے عہد میں تازہ ہوا، میں نے پھر سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا ایوارڈ عوامی ہوتا ہے، میں خود کو سرکاری ایوارڈ کا اہل نہیں سمجھتا۔ میرے ایک دوست کے سامنے چودہ پندرہ سال پہلے ایک بیوروکریٹ نے کسی شخصیت کو فون کیا کہ حکومت آپ کو فلاں ایوارڈ دینا چاہتی ہے تو جواباً اس شخصیت نے کہا میں یہ نہیں بلکہ فلاں ایوارڈ لینا چاہتا ہوں پھر حکومت نے یہ فرمائش بھی پوری کر دی۔ ایک باکسر کو وزارت کھیل کے ایڈیشنل سیکرٹری کہنے لگے “آپ کا ریکارڈ شاندار ہے، میں آپ کا فلاں ایوارڈ کے لئے نام بھیجتا ہوں لیکن ایک بات طے کرو کہ ایوارڈ آپ کا اور جو ساتھ 10 لاکھ ملیں گے وہ میرے”۔ باکسر ہکا بکا رہ گیا اور اس نے کہا “میں یہ ایوارڈ نہیں لینا چاہتا”۔