تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
دیکھا جائے تو وطن عزیز پاکستان میں اقلیتوں کو عبادت سمیت ہر قسم کی کھلی آزادی ہے. وہ مسلمانوں کی طرح بے خوف ہوکر زندگی گزارتے ہیں. بھارت سمیت امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں وہاں اقلیتوں کو وہ حقوق آزادی نہیں ہے جو پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل ہے. لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کسی ایک واقعہ کو جواز بنا کر عالمی سطح پر پروپیگنڈہ اس طرح کیا جاتا ہے جیسے یہ ملک اقلیتوں کیلئے جہنم بنادیا گیا ہو. دوسرے ممالک میں مسلمان اقلیتوں سمیت دیگر مذاہب کے ساتھ کیسے رویا اپنایا جاتا ہے ان کو کس حد تک مذہبی آزادی دی جاتی ہے پوری دنیا کا نقشہ آپ کے سامنے ہے. بھارت، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روس، فلسطین، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، فرانس، یورپ کے تمام ممالک کو بھلایا نہیں جا سکتا. جہاں عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے، اسکارف پہننے تک کی اجازت نہیں ہے. سندھ سمیت ملک بھر میں دیکھا جائے تو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مسلمان لڑکیاں گھر چھوڑ کر عدالتوں میں پسند کی شادیاں کرتی ہیں. اور اگر اکا دکا کوئی غیر مسلم ہندو یا کرسچن لڑکی مسلمان ہوکر پسند کی شادی کرتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ ظلم ہوگیا، ظلم ہوگیا. لیکن اسی علاقے میں سینکڑوں مسلمان لڑکیاں گھروں سے باہر نکل آتی ہیں اور عدالت میں والدین کے خلاف جھوٹ بول کر شادی کرلیتی ہیں مگر اس پر کسی اعتراض نہیں کیوں کہ وہ اظہار آزادی ہے. پاکستان وہ ملک ہے جہاں اقلیتوں کو زیادہ حقوق دیئے گئے ہیں کیونکہ ہمارا اسلام بھی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے. قائد اعظم نے مملکتِ خُداداد کو پہلی سانس لینے سے قبل ہی اس راہ پر ڈال دیاجوکہ ہردم مذہبی رواداری کی جانب بڑھتی رہتی ہے۔ اُن کے فرامین اُسی مذہب کا عکس لئے ہیں جس مذہب کی بنیاد برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ پاکستان میں ایک مسیحی جج اے آر کارکارئیلنس 1960 کرسی عدل کے سپہ سالار رہ چکے ہیں. ایک اور ہندوجج رانا بھگوان داس چیف جسٹس آف پاکستان بنے اور اپنے منصفانہ اقدامات سے پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن بن گئے. جبکہ 2009 میں ایک اور مسیحی جمشید رحمت اللہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ سندھ میں اس وقت بھی سینکڑوں جج ٹرائل کورٹ میں کام کر رہے ہیں. پاکستان میں اقلیتوں کو عبادت کرنے کیلئے مکمل آزادی حاصل ہے. ملک بھر میں 2652 گرجا گھر ہیں جن میں فی چرچ 664 عیسائیوں کیلئے ہے. ملک بھر میں ہندوؤں کے 732 مندر ہیں. فی مندر 2734 افراد کیلئے ہے. اور 167 گردوارہ ہیں، فی گردوارہ 55 سکھوں کیلئے ہے، آپ برطانیہ کی مثال لے لیں وہاں مسلمان اقلیت کیلئے 2229 مسلمانوں کیلئے صرف ایک مسجد ہے. اقلیتوں کو سینیٹ آف پاکستان میں چار مخصوص نشستیں، قومی اسمبلی میں 10، اور صوبائی اسمبلیوں میں الگ نشستیں دی گئی ہیں. اقلیتوں کی کل 23 نشستیں ہیں، جن میں بلوچستان میں 3، کے پی کے میں 3، پنجاب میں 8 اور صوبہ سندھ میں 9 نشستیں مخصوص ہیں. اقلیتوں کو قومی دھارے میں لاتے ہوئے تعلیم، ملازمتوں اور کاروبار کے مواقع مساوی حقوق فراہم کرنے کیلئے ہیں. توہین رسالت کا قانون محض پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہی نہیں بلکہ کم وبیش دنیاکے55 سے زائد ممالک میں مختلف اشکال میں موجودرہاہے اوربیشترمیں اب بھی موجود ہے۔مقدس ہستیوں کایہ قانون 1927میں اس وقت برٹش ہند میں نافذ کیا گیاجب غازی علم الدین کی شہادت کے بعد 1880کے انڈیاایکٹ میں ترمیم کی گئی اوراس میں 295اے کا اضافہ کیاگیا جس کے تحت کسی بھی مذہب کے بانی کی توہین قابل گرفت قراردی گئی بعد میں اس میں ترامیم کی جاتی رہیں. ملک میں توہین رسالت کے قوانین پر بلا امتیاز عمل ہوتا ہے، 2005 ع سے لیکر اب تک توہین مذہب کے جرم میں 56 افراد کو سزا سنائی گئی ہے. جن میں 45 مسلمان، 7 عیسائی، 2 ہندو اور دو قادیانی شامل ہیں. مسلمان 80 فیصد، اقلیتیں 20 فیصد شامل ہیں. سپریم کورٹ سمیت دیگر اپیلٹ کورٹس میں آسیہ بی بی کا کیس سب کے سامنے؛ پاپوليشن، اس کے علاوہ شفقت ایمانیول اور شگفتہ کوثر سمیت 5 مسیحی افراد کی بریت اہم مقدمات کا حصہ ہیں. قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947والی وہ تقریرہے جس کی بنیادپرآج بھی پاکستان کی اقلیتیں گیارہ اگست کو’ اقلیتوں کا دن’مناتی ہیں۔محمد علی جناح نے فرمایا ”آپ سب آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں،اپنے مندروں میں جانے کیلئے یا کسی عبادت گاہ میں جانے کیلئے۔ پاکستان کی ریاست میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یاعقیدے سے ہو. اقلیتوں کیلئے ہولی، دیوالی، اور ایسٹر تہواروں پر عام تعطیل کی جاتی ہے. تاہم کرسمس پر عام عوامی تعطیل ہوتی ہے. پولیس رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مکمل طور پر سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے. اقلیتوں کیلئے فلاحی اقدامات اٹھائے گئے ہیں. 8 ستمبر 2022 ع کو کے پی اسمبلی میں بل کی منظوری کے بعد انڈوومنٹ فنڈ بنائے گئے ہیں. اقلیتی طلباء کو وظائف کی شرح 25 مارچ 2014 ع سے دگنی کی گئی ہے. وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اقلیتوں کیلئے سرکاری نوکریوں کی کوٹا میں اوپن میرٹ کے علاوہ 5 فیصد مختص کی گئی ہے. اور باقاعدہ عمل بھی ہو رہا ہے. پرائمری سطح پر ہی اقلیتوں کیلئے اقلیتی مذاہبِ تعلیم واحد قومی نصاب این سی متعارف کرایا گیا ہے. جبری شادیوں کے شکایات پر وفاقی سطح پر قومی اسمبلی سے ہندو میرج ایکٹ 2017 ع نافذ کیا گیا ہے. جو کہ سندھ کے علاوہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے. جبکہ سندھ سرکار نے سندھ ہندو میرج ایکٹ 2016 اور 2018 ع میں ترمیم شدہ منظور کیا گیا ہے. ہندو برادری میرج قوائد 2019 ع کے مطابق اپنی شادیاں کرنے میں سہولت فراہم کی جا سکے. بھارت گئے ہوئے ہندو بڑی تعداد میں اب وطن واپس لوٹ رہے ہیں، گزشتہ ایک سال کے دوران 133 ہندو واپس آگئے ہیں. جن کو دوبارہ آباد کیا جا رہا ہے. بھارت کے خلاف 5 ہزار سے زائد پاکستانی ہندوں نے احتجاج بھی شروع کیا تھا جو کہ پاکستان کے ساتھ محبت کی اور عقیدت کی عکاسی کرتے ہیں. وفاقی حکومت نے کرک میں مندر کے تنازع پر سیکیورٹی پر مامور 12 پولیس اہلکاروں کو برطرف اور 92 اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا. آگ لگانے کے شبہ میں 117 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا. اور مندر کی تعمیر سرکار کی جانب سے کرائی گئی تھی. حکومت کی جانب سے تاریخی گردوارہ کرتارپور صاحب کوریڈور کا افتتاح، اور سکھ برادری کیلئے کھولنا، بابا گرونانک کے 550 ویں جنم کی تقریب کا انعقاد بھی شامل ہے، ہندو اور سکھ برادری کے باصلاحیت طلبہ کیلئے بابا گرونانک اسکالرشپ کا آغاز کیا تھا. دنیا بھر کے 60 ہزار سے زائد یاتریوں کی میزبانی کی جاتی ہے. پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی، جس کے مغربی پاکستان کے نتائج کے مطابق، مُلک میں 4 لاکھ، 34 ہزار عیسائی، 3 لاکھ، 69 ہزار شیڈول کاسٹ سے وابستہ افراد اور ایک لاکھ، 62 ہزار اونچی ذات کے ہندو تھے۔شیڈول کاسٹ کی آبادی کے تعیّن کے لیے کوئی الگ سے فارم یا خانہ نہیں تھا، بلکہ ماہرین نے اس کا اندازہ مختلف اعداد وشمار کی بنیاد پر لگایا۔ 1961ء کی مردم شماری میں پاکستان میں5 لاکھ، 884 عیسائی، 4 لاکھ، 18 ہزار، 11 افراد کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تھا، جب کہ اونچی ذات کے ہندو 2 لاکھ، 3 ہزار، 794 تھے 1972ء میں ہونے والی مردم شماری میں عیسائیوں کی تعداد 9 لاکھ، 7 ہزار، 861 تھی، شیڈول کاسٹ 6 لاکھ، 3 ہزار، 369 اور اونچی ذات کے ہندو 2 لاکھ، 96 ہزار، 837 تھے۔1981ء کی مردم شماری کے فارم میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ختم کرکے اُنہیں بھی ہندو ڈکلئیر کردیا گیا. جس کے مطابق مُلک میں 13 لاکھ، 10 ہزار 426 عیسائی اور 12 لاکھ، 76 ہزار، 116 ہندو موجود تھے۔1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے فارم میں شیڈول کاسٹ کا خانہ بحال ہوا۔نتائج کے مطابق، 20 لاکھ، 92 ہزار 902 عیسائی، 21 لاکھ، 11 ہزار، 217 ہندو اور 3 لاکھ 32 ہزار 343 شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے تھے۔جب کہ 2017ء کی مردم شماری کے مذہب کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔ ہمارے ملک میں قانون آئین کے ساتھ اسلام شریعت بھی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا, أنا أحق من أوفي بذمته.’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔ جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے. دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔(علی انس گھانگھرو)