سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے اپنے بلاگ باعنوان “90 دن کی کہانی”میں اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔ “جیو ” اور روزنامہ “جنگ ” میں شائع ہونیوالے کالم میں انہوں نےلکھا کہ “بار بار ایک سوال کیا جار ہا ہے کہ آپ کو کیسے پتہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد90دن میں الیکشن نہیں ہوگا؟شروع شروع میں یہ سوال سن کر میں جھنجلا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی دفعہ وسیم بادامی صاحب نے جنوری 2023ء میں اپنے ٹی وی شو میں مجھ سے پوچھا کہ الیکشن کو 90 دن سے آگے کیسے لے جایا جائے گا؟میں نے انہیں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ الیکشن کمیشن کہے گا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، حکومت فنڈز نہیں دیگی اور ایک بہت بڑا آئینی بحران پیدا ہوگا۔ میرے جواب نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا اور کہا گیا کہ یہ خبر نہیں بلکہ ایک خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی”۔انہوں نے لکھا کہ آج کل حالات ایسے ہیں کہ مجھ جیسے صحافی کسی سوال کا درست جواب دیں تو سننے والے اپنی اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں کہ جواب درست تھا یا نہیں اور جن کو جواب پسند نہیں آتا وہ آپ کے بارے میں سازشی مفروضوں اور الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔ میں اس قسم کے الزامات کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم رہا۔ پھر شاہ زیب خانزادہ نے اپنے شو میں دوبارہ پوچھا کہ “انتخابات90 دن میں ہونگے یا نہیں؟ میں نے واضح انداز میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ انتخابات90 دن میں ہو جائیں لیکن خبر یہ ہے کہ90 دن میں نہیں ہونگے”۔لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی 90 دن میں الیکشن کا حکم دیدیا۔ عدالتی احکامات کے باوجود میں اس مؤقف پر قائم رہا کہ الیکشن 90 دن میں نہیں ہوگا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ گزارش بھی کرتا رہا کہ خدارا پاکستان کے آئین کو تماشا نہ بنائیں۔
پھر جب نظر آنے لگا کہ الیکشن90دن میں نہیں ہوگا تو پوچھا جانے لگا کہ آپ کو کیسے پتہ تھا الیکشن90دن میں نہیں ہوگا؟ یہ سوال وہ دوست کر رہے تھے جو پہلے مجھ سے اتفاق کرنے کی بجائے کہتے تھے کہ الیکشن 90 دن کے اندر ہی ہوگا۔یہ ناچیز مسکرا کر اس سوال کو نظر انداز کرتا رہا۔ ہر وقت ہر کسی کو آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ آپ کا کہا صحیح کیوں نکلا؟ اس دوران بہت سے دوست اور ساتھی ناراض ہوگئے کیونکہ میں نے ان کے ٹی وی شوز میں شرکت سے معذرت کرلی ۔ معذرت کی وجہ صرف ایک سوال سے فرار نہیں بلکہ تنگی وقت بھی تھی۔ آپ ایک دن میں دو دو تین تین شو نہیں کرسکتے اور بار بار ایک ہی طرح کے موضوعات پر بولتے رہنا اپنے آپ کو بھی اچھا نہیں لگتا۔آج عمران خان ہر قیمت پر دوبارہ ایک ایسا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ ایک دفعہ پھر اختیار سے محروم ہوں گے۔پچھلے دنوں ہمدم دیرینہ عامر متین نے اپنے ٹی وی شو میں الیکشن کے التوا ءکی وجہ پوچھی تو میں نے انہیں تفصیلی جواب دیا۔ عرض کیا کہ مجھے 90 دن میں الیکشن نہ ہونے کا اس لئے پتہ تھا کہ میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں آئین غیر مؤثر ہو چکا ہے۔جن ججوں کے فیصلے ساس اور بیٹے کے مفادات کا شکار ہو جائیں وہ 90 دن میں الیکشن نہیں کرا سکتے۔آگے کی بھی سن لیں۔ الیکشن جب بھی ہوئے اقتدار انہیں نہیں ملے گا جو1 کروڑ20 لاکھ میں کسی پارٹی کا ٹکٹ بیچ رہے ہیں۔