تحریر: جاوید صدیقی۔۔
صحافت شعبہ آزاد بے باک حق و سچ پر محیط ھوتا ھے ہر صحافی بخوبی اپنے فرائضِ منصف اور حدود سے اچھی طرح واقف ھوتا ھے۔ صحافی جس میں رپورٹر ہوں یا اینکرز یا پھر کالمکار اور پس پشت کاپی ایڈیٹر، کاپی رائٹر، اسائنمنٹ ایڈیٹرز، نیوز کنٹرولر اور ڈائریکٹر نیوز اپنے اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو انتہائی احسن انداز میں پیش کرتے چلے آرھے ہیں۔ یہ صحافی حضرات یوجیز اور کلبس کے ممبر بھی ھوتے ہیں جبکہ اسی میڈیا انڈسٹری میں شوق و ذوق سمجھیں یا مال و متاع جمع کرنے والوں کا ایک سلسلہ بھی جاری ھے جسمیں خود ساختہ اینکرز و غیر مصدقہ رپورٹرز بھی موجود ہیں جو جعل سازی اور غیر اخلاقی کردار کی بنیاد پر عظیم پیشہ صحافت کو بدنام کرنے سے زرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ خیر یہاں ان جعل سازوں کا ذکر کرنا مقصد نہیں۔۔
معزز قارئین!! سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف وہ واحد سربراہ تھے۔ جنھوں نے پاکستانی عوام کو آزاد خودمختیار سچ و حق پر کاربند رہنے والے نجی چینلز کو بھرپور مکمل انداز میں موقع فراہم کیا۔ سنہ دوہزار میں سب سے پہلے پاکستان کا سٹلائٹ چینل اےآروائی ڈیجیٹل نے لندن سے اپنی نشریات کا آغاز کیا جس میں بلیٹن دس بجے شب ھوتا تھا اور لائیو پروگرام اےآروائی سیف اسٹار گولڈ پروگرام معروف فلمی اداکار ندیم اور ژالے سرحدی کرتی تھی اس پروگرام کے ڈائریکٹر مبشر لقمان تھے جبکہ انکے معاون سید مظہر عباس عرف چیکو پیش کرتے تھے۔ اکرام سہگل، پی جے میر، ڈاکٹر شاہد مسعود و دیگر پیش کرتے تھے بہت کم وقت میں یہ چینل بلندیوں کو چھونے لگا۔ لندن میں صدر و سی ای او سلمان اقبال گاندھی میمن صاحب چینل پر مکمل توجہ مرکوز کیئے ھوئے تھے تو پاکستان میں حاجی عبدالرؤف گاندھی میمن صاحب نے انتہائی محنت شب و روز جاری رکھیں انکے معاون خاص میں ندیم فاروقی تھے یاد رہے حاجی عبدالرؤف گاندھی میمن صاحب سلمان کے چچا اور حاجی عبدالرزاق یعقوب کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں۔ چینل کی ترقی کو دیکھتے ھوئے حاجی عبدالرزاق یعقوب گاندھی میمن نے دو مزید چینلز کی سنہ دو ہزار دو میں لاؤنچنگ کی اجازت دی جس میں ایک نیوز پر مشتمل تھا اےآروائی ون ورلڈ جو دو ہزار آٹھ میں اےآروائی نیوز میں تبدیل ھوگیا جبکہ دوسرا چینل مذہبی کیو ٹی وی کے نام سے لاؤنچ کیا جو دو ہزار آٹھ میں اےآروائی کیو ٹی وی میں تبدیل ھوگیا۔ قابل غور اور قابل توجہ یہ ھے کہ اےآروائی ڈیجیٹل کو اےآروائی نیٹ ورک تک حقیقی معنوں میں انتھک محنت و مشقت اور بہترین ٹیم کی بہترین رہنمائی و سرپرستی حاجی عبدالرؤف گاندھی میمن صاحب نے کی۔ اسی سال سنہ دو ہزار دو اگست میں دوسرا چینل جیو ٹی وی لاؤنچ ھوا پھر کیا تھا نجی چینلز میں مقابلہ کا سلسلہ شروع ھوا اور پھر پے در پے چینلز لاؤنچ ھونے لگے۔ سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے نجی شعبے میں چینلز کیلئے ایک ادارہ بنایا جس کو پیمرا کہتے ہیں یہ ادارہ اخلاقی و قومی معاملات کے کنٹرول کیلئے بنایا گیا تھا جو آج اپنی شکل کھوچکا ھے بہتر یہی ھے کہ سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے بنائے گئے اداروں کو فحال اور بہتر بنایا جائے نہ کہ مزید اداروں کی قطار لگادیں۔ اس میں کوئی شک نہیں اور کوئی دو راہ نہیں کہ مشرف نے ریگولراتھارٹیز بنائی تھیں وہ ضرورتِ وقت تھی اور انہیں مزید مضبوط اور بہتر بنانا تھا لیکن افسوس نفرت اور ضد میں ریاست کو تہہ بالا کرنے سے شرم محسوس نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔
معزز قائین۔۔پاکستان کی وفاقی حکومت نے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا، اخبارات، ڈیجیٹل میڈیا اور میڈیا سے منسلک دیگر پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک نئے ادارے ‘پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی’ کے قیام کے لیے بل جمعے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نئی اتھارٹی کے قیام سے میڈیا کی آزادی، غیر جانب داری اور صحافتی اقدار کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کیلئے مشاورت کی غرض سے مختلف صحافتی اور میڈیا مالکان کی تنظیموں کو ڈرافٹ بھی بھیجا گیا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت اسے نافذ العمل کرنے کیلئے جلد صدارتی آرڈیننس بھی لانا چاہتی ہے۔ اتھارٹی پاکستان میں بننے والی فلمز، الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا کے مواد اور اشتہارات کو ریگولیٹ کریگی جبکہ یہ ادارہ نہ صرف پرائیویٹ بلکہ سرکاری میڈیا کو بھی ریگولیٹ کرسکے گا۔حکومت کا کہنا ہے کہ ‘پی ایم ڈی اے’ کے قیام کے بعد میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے دیگر تمام قوانین کا خاتمہ کردیا جائےگا۔ حکومت کے مطابق، اس قانون کے تحت اخبارات اور جرائد وغیرہ کی رجسٹریشن آن لائن ممکن ہوسکے گی جبکہ مطبوعات اور پرنٹنگ پریس کی ڈیکلیئریشن جاری کرنا بھی اسی اتھارٹی کے ذمے ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ فلموں کی پروڈکشن، نمائش، ڈیجیٹل میڈیا کی رجسٹریشن، مانیٹرنگ، تجزیہ، ریٹنگ کا اجرا اور قوانین کا نفاذ بھی اتھارٹی کریگی۔ لائسنسنگ کے اجرا کے ساتھ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے تحت قائم ‘میڈیا کمپلین کونسل’ میڈیا کے خلاف ہر قسم کی شکایات سننے کا بھی مجاز ہوگا۔اسی طرح میڈیا ملازمین کی تنخواہیں اور اس سے متعلق تنازعات کا حل بھی اسی ادارے کے تحت ہوگا۔ اس کونسل کو شکایات موصول ہونے والے ادارے کو طلب کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔
صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پہلے سے موجود میڈیا اداروں کو بھی اس اتھارٹی کے ذریعے بیورو کریسی، سیاستدانوں اور پس پردہ قوتوں کے دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس عمل سے میڈیا پروفیشنلزم کے بجائے صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہیگا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر کا کہنا ہے کہ بل کے ذریعے میڈیا پر غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ کیا جارہا ہے۔۔ معزز قارئین!! حکومتِ وقت ھو یا اپوزیشن جماعتوں نے کبھی بھی صحافی و صحافت پر سنجیدگی کا مظاہرہ پیش نہیں کیا۔ خاص کر عمران خان صاحب اور انکے وزراء و مشیران کے سامنے دو ہزار انیس کو چھوٹے بڑے چینلز نے ڈاؤن سائزنگ کے نام پر بڑے پیمانے پر کئی کئی سال حتیٰ کہ اپنے پائینرز ملازمین کو جاب سے بے دخل کردیا گیا تھا ان دو سالوں میں عزتِ نفس رکھنے والے وائٹ کالر صحافی کس قدر ذہنی اذیت کا شکار رہے ہیں وہ کرب و اذیت بیاں سے قاصر ھے یہاں صرف یہ بیاں کرتا چلوں کہ بیروزگاری کے سبب پیدا ھونے والے حالات پر ھمارے کئی دوست صحافی اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ مدینہ ثانی کہنے والے اور اپوزیشن جماعتوں کی بے حسی بے دلی اور عدم توجہگی کی بنیاد پر صحافتی میدان میں ایسے اثرات پیدا ھوسکتے ہیں جو نہ صحافت کیلئے بہتر ھیں اور نہ ریاست کیلئے۔ عمران خان صاحب اور انکے وزراء و مشیران میں رتی برابر بھی اگر ایمان ھے الله کا خوف ھے رسولِ پاک سے محبت ھے تو خدا کیلئے نظامِ ریاست میں حق و سچ قرآن و سنت کی بنیاد پر ایسا نظام مروج کیا جائے جس میں ایک صحافی اپنے حقوق کو بآسانی حاصل کرسکے دکھ اور افسوس کا مقام تو یہ ھے کہ بڑے بڑے معروف اینکرز جو عمران خان صاحب اور انکے وزراء و مشیران کے محفل کی زینت بنتے چلے آئے ہیں کبھی بھی صحافیوں کے مسائل اور حقوق پر بات نہیں کی ۔صحافتی تنظیم کے عہدیداران کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ کراچی کے سینئر صحافی و کالمکار جاوید صدیقی نے کہا ھے کہ انہیں حکومت کی نیت پر شک نہیں مگر صرف خوف یہ ھے کہ کہیں راستے میں ہی پنکچر نہ کردیا جائے پاکستانی ایوان کی تاریخ رہی ھے کہ دکھاتے کچھ اور دیتے کچھ کے عمل سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ عمل ستر سالوں سے ایوان کے عمل میں دیکھتے آئیں ہیں اور وہیں ہوتا ھے جو برسرِ اقتدار جماعت چاہے۔ سیاسی اپوزیشن جماعت اور صحافتی تنظیموں کی حالت یہ ھوتی ھے کہ گانٹھ نہ مٹھی پھڑپھڑا اٹھی۔۔۔(جاوید صدیقی)