تحریر: بادشاہ خان
چند دن قبل میڈیا پر جرنلسٹ پروٹییکشن بل کا شور تھا، کہ اب کوئی صحافی سے ذرائع نہیں پوچھ سکے گا، صحافت آزاد ہوگی، صحافی کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، صوبہ سندھ کی اسمبلی نے بل بھی پاس کرلیا، وفاقی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے،اور اسی دوران وفاقی اور صوبائی اسمبلیو ں کے ہوتے ہوئے ایک صدارتی آرڈیننس کا شور ہے، پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے آزادی رائے کو مزید سنسر کرنے کی تیاریاں ہے، لگتا ہے مستقبل قریب میں کسی کو بڑے سہارے کی ضرورت ہے، تاکہ اس وقت کوئی اس کے اقدامات کے خلاف نہ بول سکے،لیکن کیا ہوسکتا ہے، صحافی تو پھر صحافی ہیں، کہا ں اپنی آزادی پر سمجھوتا کرسکتے ہیں، اور اس آرڈیننس کی تفصیلات سامنے آتے ہی، پاکستان کے تاریخی پریس کلب کراچی پریس کلب میں صحافی تنظیموں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا،اجلاس میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے مجوزہ قانون پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021کے ڈرافٹ کومسترد کرتے ہوئے اسے آزادء اظہار رائے کے خلاف کالا قانون قرار دیا ہے جو 1973 کے آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے۔ حکومت ہرسطح پرمیڈیا کو کنٹرول کرنیکی جس پالیسی پر گامزن ہے(پی ایم ڈی اے)آرڈیننس اس آمرانہ سوچ کی عکاسی کررہاہے،اس آرڈیننس کے نفاذکی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے مجوزہ قانون پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021(پی ایم ڈی اے) کا جائزہ لینے اور اس پر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کے لئے کراچی پریس کلب میں پی ایف یو جے،کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور اور کراچی پریس کلب کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا، اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے ذرائع ابلاغ کے لئے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021(پی ایم ڈی اے) کا مسودہ تیار کیا ہے جسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا، جس کے بعد پیمرا،پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس منسوخ ہوجائیں گے اور ملک بھر میں کام کرنے والے پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پی ایم ڈی اے کے تحت کام کریں گے،مسودے کے مطابق تمام میڈیا اداروں کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کے لئے بھی لائیسنس اور این او سی حا صل کرنا اور تجدید لازمی قرار دیا گیا ہے،ملک میں صرف وہ میڈیا ادارے بشمول ڈیجیٹل میڈیا کام کر سکیں گے جنھیں پی ایم ڈی اے کی جانب سے لائیسنس یا این او سی جاری کیا جائے گا۔
مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا مواد نشر کرنے یا آن لائن پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جسے حکومت ریاست کے سربراہ،مسلح افواج یا عدلیہ کی بدنامی کا باعث بننے کا سبب سمجھے گی، اس آرڈیننس کی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اور بھاری مالی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے اور دوبارہ خلاف ورزی کی صورت میں یہ سزاپانچ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے اور جرمانہ بھی اس کے ساتھ ہی عائد کیا جاسکے گا۔ اس آرڈینس کی اہم اور خطر ناک بات یہ ہے کہ وفاقی، صوبائی حکومت اور مقامی انتطامیہ کی جانب سے میڈیا کے خلاف اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، آرڈیننس کے تحت میڈیا کمپلینٹ کونسل بھی تشکیل دی جائے گی جو خبروں، پروگرامات اور تجزیوں کے حوالے سے شکایات کا فیصلہ کرے گی،کونسل کو سول کورٹس کے اختیارات حاصل ہوں گے جس کے تحت کونسل کو کسی کو بھی سمن جاری کرنے یا معلومات طلب کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے خصوصی اجلاس کے شرکاء نے پی ایم ڈی اے آرڈیننس 2021کے مسودے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میڈیا اداروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے تاکہ حکومت کی ناقص اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازاور تنقید کو دبایا جاسکے اور ہر میڈیا پر صرف حکومتی موقف کو شائع یا نشر کیا جاسکے، حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کی جس پالیسی پر پہلے دن سے گامزن ہے، یہ صدارتی آرڈیننس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوری معاشروں میں آزادی اظہار رائے لازم و ملزوم ہیں، آئین پاکستان بھی آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، جمہوری معاشرے مثبت تنقید سے پروان چڑھتے ہیں، جبری پابندیوں سے معاشرے میں انتشار اور انارکی پھیلتی ہے۔اس آرڈیننس سے حکومت ایک جانب تو میڈیا مالکان کوکنٹرول کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب 1973 کا پریس اینڈ پبلیکیشن ایکٹ ختم کرکے ورکنگ جرنلسٹس کو حاصل حقوق کو بھی سلب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو کل تک صحافیوں کو ماڈرن ازم کے فروغ پر درس دینے کی کوشش کررہے تھے، جدید دنیااور جمہوریت پر رپورٹنگ کرنے کے مشورے دے رہے تھے،اب اچانک انہیں کیا ضرورت پیش آگئی کہ اسملبیوں کے ہوتے ہوئے جبر آرڈیننس نافذ کرنا چاہتے ہیں،اگر اتنا ہی اچھا اقدام ہے تو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بل کی صورت میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کیا جائے،آرڈیننس کی صورت میں مسلط نہ کیا جائے،صحافی ان پابندیوں کو ہر گز قبول نہیں کرینگے، کیونکہ وفاقی حکومت اس صدارتی آرڈیننس کو جوآزادء صحافت،بنیادی انسانی حقو ق اور آئین پاکستان کے بھی متصادم ہے نافذ کرنے سے باز رہے، اگر اس فسطائی قانون کو بزور قوت نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم ہر سطح پر قانونی اورسیاسی جنگ لڑیں گے اور اس قانون کی بھرپور مزاحمت کریں گے،کراچی پریس کلب میں ہونے والے اجلاس نے اسے انکار کردیا ہے،دیکھنایہ ہے کہ ملک کے دیگر پریس کلب وتنظیمیں کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، سوال آزادی رائے کے اظہار کا ہے، سوال جرنلسٹ پروٹیکشن کا ہے، سوال صحافت کی بقا کا ہے، زوال پذیر صحافت جیسے جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے،اسے بچانے کا ہے۔(بادشاہ خان)۔۔