تحریر۔ حماد رضا
جیسے ہی سردی اپنی آمد کا بگل بجاتی ہے شکاری برادری کے لیے یہ ایک سنکیت ہوتا ہے کہ اب شکار کےسیزن کی آمد آمد ہے ساری گرمیاں بے چینی سے انتظار کرنے والے شکاری سیزن کے شروع ہوتے ہی اپنے شکار پر جھپٹ پڑتے ہیں اور شکار کا یہ سیزن فروری کے آخر یا مارچ تک جاری اور ساری رہتا ہے اگر دینِ اسلام کے حوالے سے شکار کا جائزہ لیا جاۓ تو اسلام نے اسے کلیّ طور پر حلال قرار دیا ہے لیکن اسلام اس بات کی بھی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ شکار کے نام پر جنگلی حیات کی قتل و غارت کی جاۓ پاکستان میں غیر قانونی شکار ہمیشہ سے ہی بڑا مسئلہ رہا ہے اور ہمیشہ سے ہی حکومتی عدم توجہ کا بھی شکار رہا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بجا رہے گا کہ ماضی میں حکومتیں خود تیزی سے نایاب ہوتے پرندے تلور کے شکار میں ملوث رہیں ہیں پاکستان میں جہاں جا گیرداروں اور وڈیروں نے شکار کے نام پر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا وہاں عام بندے نے بھی کوئ کسر نا چھوڑی جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ہمیں تیزی سے نایاب ہوتی جنگلی حیات کا سامنا ہے بہت سی پرندوں کی نسلیں ایسی ہیں جو معدومیت کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں ہجرتی پرندوں نے ہمارے ملک کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے ان کی زیادہ تعداد اب بھارت میں نقل مکانی کرجاتی ہے آج کے اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا جانوروں کو حقوق دیتی نظر آتی ہے وہیں ہم ان جانداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہوۓ ہیں آج مہذب دنیا سانپ اور بچھو جیسے خطرناک جانوروں کو پکڑ کر ان کے زہر کو انسانی زندگیاں بچانے کے لیے استعمال کر رہی ہے جب کے پاکستان کے قانون کے مطابق کوبرا سانپ کو مارنے پر آج بھی حکومتی انعام دیا جاتا ہے جو کہ مضحکہ خیز بات ہے آپ خود اپنے چاروں اطرا ف کا باریک بینی سے جائزہ لیں آپ کو اپنے بچپن میں نظر آنے والیں ہاؤس سپیروز اب کہیں نظر نہیں آئیں گی البتہّ کسی دیہاتی علاقے میں کہیں ان کا دیدار ہو جاۓ تو ہو جاۓ تلیر جیسے کسان دوست پرندوں کا بے رحمی سے شکار ٹڈی دل کے حملوں کا سبب بنا یہ ساری صورتِ حال تو ایک طرف ہم چڑیا گھر میں قید چرند اور پرند کا خیال رکھنے سے بھی قا صر ہیں جس پر ہمیں آۓ روز کسی بھی چڑیا گھر سے لا پرواہی کے سبب کسی نا کسی جانور کی ہلاکت کی خبر ملتی رہتی ہے وائلڈ لائف کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان بنی ہوئ ہے لیکن محکمےکی طرف سے عملے اور وسائل کی کمی کا رونا رو کر صاف جان چھڑا لی جاتی ہے آزاد کشمیر گلیات اور دیگر شمالی علاقہ جات میں تیندوے کی ہلاکت کی سرخیاں بھی اکثر اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں جسے انسانی علاقوں میں گھسنے کی پاداش میں یا اکثر خوف کی وجہ سے بے دردی سے ہلاک کر دیا جاتا ہے حکومت نا ہی کوئ ایسا ادارہ قائم کر سکی ہے جو جانوروں کو ریسکیو کر سکے اور نا ہی محکمہ وائلڈ لائف کو کوئ ایسی تربیت فراہم کر سکی ہے جس ملک میں انسانی خون کو پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہو وہاں جانوروں پر رحم کی توقع بھلا کیسے کی جا سکتی ہے حکومت کو چاہیے کہ جو جانور حلال نہیں ان کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور بھاری جرمانوں کی نوید سنائ جاۓ مؤثر حکمتِ عملی اختیار کر کے نا جائز شکار کی روک تھام کی جا سکتی ہے اور تیزی سے ناپید ہوتی جنگلی حیات کو آنے والی نسلوں کے لیے بچایا جا سکتا ہے۔(حماد رضا)۔۔