تحریر: حنین بن عمران۔۔
مغرب کو فالو کرنے والے ہمارے عوام مغربی چیزوں کو ہی فوقیت دیتے ہیں انہیں ہر چیز مغرب کی ہی اچھی لگتی ہے ، اظہارِرائے کی ہی بات کرلیں ۔ یہ مغرب ہی تھاجہاں ہزاروں جنگیں لڑی گئیں اور لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام ہوا صرف اظہارِرائے کی پاداش میں اس کے باوجود ہمارے عوام کو مغرب کا یہ سلوک نہ صرف پسند ہے بلکہ ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
اظہارِرائے کا اثر ہمارے معاشرے پر کیسا پڑا اس کا احاطہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہر شہری کو اظہارِرائے چاہئے تو ہے لیکن وہ خود سے کسی کو دینا نہیں چاہتے،یعنی ان کے اپنے نظریئے میں ہی تضاد ہے۔ہمارے معاشرے میں اظہارِرائے سے مراد ہر فرد کی اپنی ہے ، کوئی کسی کو کالا ،بونا،ٹھگنا،موٹا کہہ کر رائے کا اظہار کرتا ہے اور اسے جسٹیفائی کرتا ہے تو کوئی مذہب کا استعمال کر کے انتشار اور تفریق کی بات کو رائے کا اظہار سمجھتا ہے لیکن حقیقتاً ان میں سےکسی کو اظہارِرائے کا مطلب ہی نہیں معلوم۔
میرے نزدیک اظہارِرائے ایک ذریعہ ہے کسی بھی شے سے متعلق اپنی بات کہنے کا لیکن اس بات میں کسی شخص، مذہب، فرقے، شکل و صورت، ذات پات یا ثقافت کی توہین کا عنصر شامل نہ ہو ۔
اگر عوام کے اظہارِرائے کی تعریفوں کو سمیٹ لیا جائے اس میں کسی نہ کسی کی تحقیری انداز میں مخالفت ہی نظر آئے گی جو اس معاشرے کی تقسیم اور تباہی کا سبب ہے۔ہمیں انفرادی طور پر اس معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لئے اپنی رائے پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی تاکہ اختلافات کم اور اصلاحات زیادہ ہوں ،جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم بنیادی سطح سے عوام میں آگاہی مہم شروع کریں اور اس مہم کو ہفتوں یا مہینوں پر نہیں بلکہ سالوں پر محیط کریں تاکہ 75 سالوں کا یہ گند چاہے وقت لگے مگر صاف ضرور ہو، جس کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی ہو اور تمام اسٹیک ہولڈر زایک صفحہ پر جمع ہوں تاکہ شاید ہم نہیں تو ہمارے بچے وہ صحتمند ،پر فضاء اور تقسیم سے پاک ماحول دیکھ سکیں جس کے خواب ہمارےآج کے نوجوان مغرب کا تصور کر کے دیکھتے ہیں۔(حنین بن عمران)۔۔