تحریر: عمار چودھری۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں اور شعبے تبدیل ہو رہے ہیں مثلاً وی سی آر‘ ٹیپ ریکارڈر‘ روایتی ریڈیو وغیرہ کا نام و نشان بھی اب باقی نہیں رہا‘ ان کی جگہ نئی چیزوں نے لے لی ہے۔ ہر چیز اب ڈیجیٹل ہو رہی ہے۔ ٹی وی ڈرامے تو ابھی تک کچھ نہ کچھ چل رہے ہیں لیکن فلم بینی میں خاصی کمی آ گئی ہے۔ یہ شاید صرف پاکستان میں ہوا حالانکہ باہر بھی موبائل فون ہر کسی کے پاس موجود ہے اور اس پر ہزاروں قسم کی وڈیوز روزانہ اَپ لوڈ ہوتی ہیں لیکن وہاں اب بھی دو چیزیں اسی طرح قائم و دائم ہیں؛ ایک کتب بینی اور دوسرا سینما گھروں کی رونقیں‘ جو وہاں اب بھی بہت حد تک بحال ہیں۔ جاپان‘ امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر ممالک کے ترقی یافتہ ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہاں آج بھی کوئی کتاب شائع ہوتی ہے تو اس کی ہزاروں‘ لاکھوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایک ایڈیشن شائع ہو کر فروخت ہو جائے تو اس کتاب کو کامیاب شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں کتابیں بھی کئی کئی یعنی سیریز کی شکل میں لکھی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ہیری پورٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ نے سات کتابوں کی سیریز لکھی‘ جس کی کروڑوں کاپیاں فروخت ہوئیں اور بعد ازاں ان پر فلم سیریز بھی بنی جس نے ریکارڈ بزنس کیا۔
اب یہ موبائل فون وغیرہ مغرب کی ایجادات ہیں اور وہاں بھی استعمال ہوتی ہیں لیکن وہاں پر ہر چیز میں توازن موجود ہے اور کلچر اور تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے بھی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مگر دیکھا دیکھی کا کلچر عام ہے۔ جو ٹرینڈ ایک مرتبہ چل پڑے‘ ہر کوئی اس کے پیچھے بھاگ پڑتا ہے۔ اسی کا نقصان سینما انڈسٹری کو ہوا اور بہت سے سینما گھر بند ہو گئے۔ اس کی ایک وجہ تو معیاری فلموں کا فقدان تھا اور اسی سے جڑی وجہ فلم سازی کے لیے درکار بھاری سرمایہ تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ مہنگائی بڑھتی گئی تو فلموں کی آئوٹ ڈور شوٹنگ کے اخراجات بھی کئی گنا بڑھ گئے کیونکہ فلمیں ڈراموں کے برعکس کسی ایک گھر میں تو بن نہیں جاتیں بلکہ متعدد سائٹس پر شوٹنگ ہوتی ہے‘ اسی طرح بہت سی فلموں کے مناظر کئی ممالک میں فلم بند ہوتے ہیں۔ کورونا کے بعد اس صنعت کو بھی خاطر خواہ نقصان پہنچا اور ڈالر کی اڑان نے تو رہی سہی کسر پوری کر دی۔ دبئی‘ سنگاپور اور تھائی لینڈ وغیرہ کی ایئر ٹکٹوں کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔ اسی طرح فلموں کا سامان یعنی کیمرہ‘ کمپیوٹر وغیرہ بھی ڈالر اور امپورٹ سے جڑے ہونے کی وجہ سے مہنگے ہو گئے جس سے اس انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے ہاتھ کھینچ لیے۔ ان مسائل پر بہت سے سینئر فلم پروڈیوسرز نے متعدد فورمز پر آواز اٹھائی۔ گاہے گاہے وہ ٹی وی پر آ کر بھی اپنے دکھڑے سناتے رہے؛ تاہم ان کے مسائل کو سابق ادوار میں کسی نے سننے کی زحمت تک گوارا نہیں کی؛ اب گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے فلم انڈسٹری کے لیے کچھ تجاویز اور اقدامات کی خبر دیکھنے کو ملی ہے جو حیران کن بھی تھی اور خوش آئند بھی کیونکہ دیگر کئی ملکوں کے برعکس پاکستان میں یہ انڈسٹری زوال کا شکار تھی اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ اب حکومت کی جانب سے نئی فلم پالیسی متعارف کرائی گئی ہے جس کا مقصد فلم سازوں کو مالی مدد فراہم کرنا، سنسرشپ کی پابندیوں کو ہٹانا اور نئے سینما گھروں کی تعمیر کے ذریعے ان چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ خبر کے مطابق وزارتِ اطلاعات کے فلم ڈائریکٹوریٹ کی تنظیم نو کی جائے گی اور ایک نئے فلم ڈائریکٹوریٹ کی بھی تجویز سامنے آئی ہے۔ اسی طرح فلم اور ڈرامہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پاکستان میں فلم اور ڈرامہ کی تیاری میں سہولت فراہم کرنے کے لیے مالی مراعات کا بھی اعلان سننے میں آ رہا ہے جن میں دس سال کے لیے صنعت سے متعلقہ آلات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ بھی شامل ہے۔
اس وقت پاکستان میں سازگار ماحول اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے فلم اور ڈرامہ کی تیاری ایک مہنگا منصوبہ ہے۔ مناسب حکومتی فنڈنگ کے بغیر فلم اور ڈرامہ پروڈیوسروں‘ خاص طور پر ابھرتے ہوئے اور نوجوان فلم اور ڈرامہ گریجوایٹس کے لیے اپنے خیالات کو بین الاقوامی معیار کی پروڈکشن میں تیزی سے تبدیل کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ فلم اور ڈرامہ پروڈکشن کو فروغ دینے اور فلم و ڈرامہ پروڈیوسروں کے لیے مناسب وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے دو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہندہ ایس ای سی پی لسٹڈ کمپنی فلم یا ڈرامے کے لیے فنانس فنڈ تک رسائی حاصل کر سکتی ہے جبکہ فلم اکیڈمی، ثقافت اور ورثے کے عجائب گھروں، فلم میوزیم، اکیڈمیز، سٹوڈیوز، سنیما ہائوسز کی عمارت، پروڈکشن ہائوسز اور پوسٹ پروڈکشن سہولتوں وغیرہ کے لیے بھی اس فنڈ سے رقوم لی جا سکتی ہیں۔
جو لوگ چالیس‘ پچاس یا اس سے زیادہ عمر ہیں انہوں نے لاہور ایبٹ روڈ اور ملحقہ علاقوں میں درجنوں سینما گھروں کو دیکھا ہو گا لیکن اب ان میں سے آدھے سے زیادہ ختم ہو چکے ہیں۔ کئی ایک تو گرا دیے گئے ہیں اور کچھ بند پڑے ہیں۔ چند ایک تھوڑا بہت خود کو کھینچ رہے ہیں اور بمشکل کرایہ ہی نکال پاتے ہیں۔ حکومتی پالیسی میں سنیما گھروں کی بحالی کے لیے انکم ٹیکس کی مراعات بھی رکھی گئی ہیں تاکہ ان کے منافع میں اضافہ ہو اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سستی ٹکٹ مل سکے۔ ایسے تمام سنیما گھروں کو‘ جن کی ٹکٹ کی زیادہ سے زیادہ حد 350 روپے ہے‘ ان کو پانچ سال کی مدت کے لیے انکم ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
ہمارے زیادہ تر اداکار معروف تو ہوتے ہیں اور عام لوگوں کا ان کے بارے میں یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ امیر ہوں گے مگر اکثر یہ بات خام خیالی یا غلط فہمی ثابت ہوتی ہے۔ ہم آئے روز بہت سی ایسی کہانیوں اور وڈیوز کو دیکھتے ہیں جن میں کسی پرانے فلمی اداکار کی حالتِ زار‘ اس کا گھر اور ابتر مالی حالات دکھائے جاتے ہیں۔ کئی اداکار بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں تو علاج کرانے کی سکت تک نہیں رکھتے۔ ایسے مستحق فنکاروں کو وزیراعظم کے نیشنل ہیلتھ پروگرام کے ڈیٹا بیس میں شامل کر لیا جائے تو انہیں ملک بھر میں صحت کی سہولتوں تک باوقار رسائی فراہم کی جا سکے گی۔ اسی طرح ملک میں بننے والے ڈراموں کی ایکسپورٹ پر ٹیکس وغیرہ کی چھوٹ دی جانی چاہیے تاکہ دنیا بھر میں یہ بزنس پھیلے اور پاکستان کا کلچر‘ زبان اور تہذیب ڈراموں کے ذریعے دنیا بھر میں پہنچ سکے۔
ویسے اس وقت محض انٹرٹینمنٹ سے بڑھ کر بامقصد اور کسی مثبت پیغام پر مبنی فلموں کی تیاری کی ضرورت ہے۔ ایک جوڑے کی روایتی محبت‘ گھروں سے فرار اور ایسی کہانیاں اور مناظر جن کا ہماری حقیقی زندگی اور کلچر سے دور پار کا بھی تعلق نہیں ہوتا‘ ان پر زور ذرا کم کرنا چاہیے اور ایسی فلمیں نمایاں ہونی چاہئیں جن میں پاکستان کی سیاحت‘ اس کے کھانے‘ اس کی برآمدات اور اس کا پوٹینشل دنیا کے سامنے آ سکے۔ ہالی وُڈ اور بالی وُڈ کی فلموں میں انتہائی باریک بینی سے ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایسے ایسے پیغامات دنیا تک غیر محسوس انداز میں پہنچا دیے جاتے ہیں جو عام طور پر پہنچانا ممکن نہیں ہوتے۔
کوئی بھی حکومت فلم انڈسٹری میں جان ڈالنے کے لیے محض مراعات اور سہولتیں ہی دے سکتی ہے لیکن اصل کام فلم انڈسٹری کو خود کرنا ہے۔ یہ کام پروڈیوسرز‘ رائٹرز‘ ہدایت کاروں اور اداکاروں نے کرنا ہے۔ پاکستان کی فلموں کو عالمی مقابلوں کے قابل بنانا ہے اور ایسے ایشوز پر کام کرنا ہے جو روایت سے ہٹ کر ہوں اور جن سے ملک کا نام روشن ہوتا ہو اور اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو بھارت اپنی فلموں کے ذریعے کرتا رہتا ہے۔ اسلام‘ پاکستان‘ مسلمانوں اور پاکستانی اداروں کے خلاف جو پروپیگنڈا بھارت اور دیگر ملکوں کی فلم انڈسٹری کے ذریعے ہوتا ہے‘ اس کے توڑ پر بھی کام ہونا چاہیے۔ یہ سب ایک منظم انداز میں کیا جائے اور حقیقی ایشوز کو اجاگر کیا جائے تو ہی پاکستانی فلمی انڈسٹری دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)