سینئرصحافی، کالم نویس اور اینکرپرسن رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ۔۔اب اس ملک میں حکمرانوں سے لے کر بیوروکریسی تک کسی کو پاکستان کے امیج کی پروا نہیں۔ ہر روز اس ملک میں سرمایہ کاری لانے کی بڑھکیں ماری جاتی ہیں‘ اب بتائیں کون اس ملک میں ایک ڈالر بھی لگائے گا جہاں قانون کے رکھوالے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جائیں اور حکمران اس معاملے میں نیوٹرل ہو جائیں۔ یہاں کون آئے گا؟ دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ابھی دیکھ لیں کہ جو کچھ بہاولنگر میں دو اداروں کے درمیان ہوا اس پر آپ کو کہیں کوئی سیاسی حکمران نظر آیا ؟ آپ کو کہیں محسوس ہوا کہ اس ملک میں وزیراعظم‘ وزیرداخلہ ‘ وزیردفاع یا وزیراعلیٰ پنجاب بھی موجود ہیں ؟ کسی نے ان کو اس پورے بحران میں کہیں دیکھا؟ وہی بات کہ یہ فری فار آل تھا۔ دو اداروں کے سپاہی ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے اور جیسے باقی لوگ سوشل میڈیا پر مارکٹائی کی ویڈیوز دیکھ رہے تھے وہی کچھ ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ‘ وزیردفاع اور وزیرداخلہ بھی کررہے تھے۔ ان سب نے یہی سوچا کہ ہمارا اس جھگڑے سے کیا لینا دینا‘ ہم کیوں خود کو خراب کریں‘ برُے بنیں‘ ہمارے لیے دونوں اہم ہیں۔ ایک کے کندھوں پر سوار ہو کر ہم حکمران بنے ہیں اور دوسرے کے ڈنڈے سے ہم نے لوگوں کو خوفزدہ کر کے ان پر حکمرانی کرنی ہے۔اس معاملے میں کسی ایک فریق کی مدد کی تو دوسرا ناراض ہو جائے گا۔۔میرے لیے بڑا صدمہ حکمرانوں کا بہاولنگر ایشو پر تین روز تک نیوٹرل رہنا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔ہماری پولیس اور بیوروکریسی کا گولڈن دور گزر گیا‘ اب ایوریج سے بھی کم ذہانت اور قابلیت کے لوگوں نے اہم عہدوں پر قبضہ جما لیا ہے یا طاقتور لوگوں نے ایسے لوگوں کو پروموٹ کر کے بڑے بڑے عہدے دلوا دیے ہیں ۔ اب ان عہدوں کا رعب ‘ دبدبہ یا احترام بھی ختم ہوگیا ہے۔ ان عہدوں پر ایسے لوگ بٹھائے گئے کہ لوگوں نے جگتیں مار مار کر ان عہدوں کی مت مار دی۔ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ عوام کو بتایا جائے کہ اُن کے اندر کیسے کیسے جوکرز پائے جاتے ہیں۔ لوگ سیاست اور سیاستدانوں سے تنگ آگئے کہ اگر یہ ہمارے سیاستدان اور حکمران ہیں تو اللہ ہی حافظ ہے۔