تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
قبل اسکے کہ ہم آپکو اپنے پاجامے کی کتھا سنائیں بہتر یہ ہے کہ پہلے تاریخ میں پاجامے کے سفر کی طرف لے جائیں تاکہ معتبر ہوجائیں اور آپ بھی یہ جان پائیں کہ اوپر سے واحد مگر نیچے سے جمع کی خصوصیت رکھنے والے یوں تو کئی ملبوس ہیں مگر ان میں پاجامہ ایک الگ ہی مقام رکھتا ہے خاصآ بلند مقام ، کیونکہ اس کا تاریخی تعلق خاندان مغلیہ اور نوابان شغلیہ سے جڑا ہوا ہے ، یہاں بدگمانی مناسب نہیں ، ان سے پہلے کے بادشاہ بھی یقینآ کچھ نہ کچھ پہنتے ہی ہونگے مگر صرف پورٹریٹ تصاویر بنوانے کے ان کے شوق نے یہ راز کبھی کھلنے ہی نہیں دیا ، مغل بادشاہ بھی اگر کچھ تصاویر تخت پہ بیٹھ کر پھول سونگھتے نہ بنواتے تو پجامے کی شاہی فضیلت تک ہم کبھی نہ پہنچ پاتے ۔۔۔ ویسے مغلوں کے ناقدین کے مطابق ان کے آخری دور کے بادشاہ اگر پاجامے کے اوپر صرف کرتا ہی پہنتے اور بھاری بھرکم سی فراکیں لبادے چوغے اور شاہی تاج نہ لادتے تو عین ممکن تھا کہ بروقت تخت شاہی سے اٹھ پاتے اور آناً فاناً میدان جنگ میں پہنچ پاتےاور یوں جنگ کے نتائج مختلف ہوجاتے اور تاریخ کے میدان میں یہ فراکیں اور پاجامے نہ پڑے رہ جاتے ۔۔۔ اسی لئے بعد کے لوگوں کو ترکے میں شاہی تاج و تخت تو نہ ملا لیکن بکھرے شاہی قرض نامے اور ادھڑے شاہی پاجامے ضرور مل گئے ۔۔۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بھاری بھرکم زرتار لباس کو سنبھالتے رہنے کے چکر میں سلطنت کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالنے سے رہ جاتی ہیں پھر جنہیں بعد میں کچھ بدیسی آکے سنبھالتے ہیں اور زرتار لباس والوں کے ہاتھ میں بس انگوٹھی اور لنگوٹی ہی رہ جاتی ہے ۔۔۔
پاجامے کے تاریخی سفر میں کئی موڑ آئے جن میں ایک علی گڑھ کے کشادہ پاجامے کا تھا جو کہ شاید ہواداری کی اہمیت سمجھانے کی ایک کوشش تھی یا پھر اس کے پس منظر میں نچلی گردشی فصیل کا تصؤر تھا – گاؤں دیہاتوں میں البتہ ہوائی لطف و سرور کی یہ فطری خواہش لنگی و تہ بند کے ذریعے پوری کی گئی –
ایسا لگتا ہے کہ علی گڑھ کے کشادہ پاجامے کی ہوا خور خوبی ہی سے متاثر ہوکے خواتین نے غرارے ایجاد کئے، بس قباحت کا یہ معاملہ ہمیشہ رہا کہ ان میں چھوٹے بچے چھپن چھپائی کے لئے بہت آسانی سے پناہ تلاش کرلیتے تھے – البتہ پاجامے کی ایک قسم یعنی چوڑی دار پاجامے بادشاہوں اور نوابین کو کسی قدر مصروف رکھنے کے لئے ایجاد کئے گئے تھے تاکہ انہیں پہننے اور اتارنے کی جدوجہد انہیں کچھ دیر تو لگے اور وہ رنگ رلیوں کے سوا کچھ ورزش کرنے جوگے بھی رہ پائیں ۔۔۔ برصغیر کی تاریخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ انہوں نے یہ کام پوری دلجمعی سے کیا اور چڑھانے اتارنے میں اپنے پرائے پاجامے کی تخصیص بھی روا نہ رکھی
چوڑی دار پاجامہ پہننے کی قباحتیں اپنی جگہ مگر اسے پہن کے چال میں بغیر کوشش کے بھی جو اتراہٹ آتی ہے وہ کچھ دیر کے لئے ہر مالی حیثیت کے بندے کو آسودہ سا کردیتی ہے کیونکہ اسے پہن کے جہاں کہیں بھی کھڑے ہوجائیں وہ جگہ خود بخود اپنی ذاتی جاگیر معلوم ہونے لگتی ہے- ایک دقت کا پہلو البتہ پاجامے کی رومالی کا ہے کہ چوڑی دار پاجامے میں تو خاص طور پہ اسکا مقام آبرو بچاؤ نوعیت سی لیئے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ پاجامے میں رومالی کا تصؤر یقینناً ٹول بکس سے لیا گیا ہے جو بدنی ورکشاپ کی ضمن میں ناگزیر ہے، کیونکہ اس کے بغیر پاجامہ باطنی طور پہ مہلک ہے اور ظاہری طور پہ حیا سوز ۔۔۔ لیکن بہت کھلے پیچوں کا پاجامہ دراصل ایک ایسا ترقی پزیر تہبند ہے جو اگرچہ کھلے بندوں اور آسانی سے سارے مقامات آہ و فغاں ہمہ وقت کھجانے کی تسلی بخش سہولت تو فراہم نہیں کرتا اور تہبند کے برابر کا ہوادار نہ بھی سہی ، مگرگستاخانہ ُاڑ ُاڑ کے دعوت نظارہ دینے کی پرخطر خصلت سے بلاشبہ مامون ہے ۔۔۔
تہبند یا دھوتی کے برعکس صاحبان پاجامہ کو سوتے میں بھی نہاں خانہء جاں کی برسرعام ‘ عقدہ کشائی’ یا اس ملبوس کے داغ مفارقت کا مطلق خدشہ نہیں ہوتا۔۔۔ اور وہ کامل حالت یقین میں سوتے ہیں جبکہ تہبند والوں کا معاملہ گمان اور بدگمانی کے درمیان ہی کہیں معلق رہتا ہے ۔۔۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ ملبوس کے بستر پہ پڑے رہ جانے کے قوی خدشات کے باوجود بھی تہبند اور دھوتی پہنے لوگ پاجاما والوں کی نسبت زیادہ بلند خراٹے اور مست خرام فراٹے دار نیند لیتے دیکھے جاتے ہیں۔۔۔۔ تقسیم ہند سے پہلے پاجامہ ویسے تو یوپی اور سی پی والوں کا ملبوس تھا ، لیکن برصغیر کے سبھی علاقوں کے امراء و رؤسا بھی پاجامہ پوشی ہی پسند کرتے تھے اور تقریبات میں تو بڑے اہتمام سے زیب تن کرتے تھے اور یوں شاہی دربار میں تو عالم یہ ہوا کرتا تھا کہ گویا ” تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۔۔۔ اردو بولنے والے جب تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے تو یہاں انکے پاجامے بیکار ہونے لگے کیونکہ اسے پہننے کی گنجائش صرف فلموں میں ہی نکل سکی – باقی ہر جگہ آسانی کا راج اور شلوار کا رواج تھا جو کہ خواتین اور مرد خشوع و خضوع سے ادل بدل کے پہنتے تھے اور قلت میں بھی کثرت کا مزہ لیتے تھے- صوبہ سندھ میں شلوار کا گھیر اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ جھاڑ جھٹک کے نہ وصولیں توعجلت میں اس کا درزی بھی ساتھ لپٹا چلا آتا تھا ۔۔۔۔ چونکہ آسانیاں ہمیشہ دامن دل کو کھینچ لیتی ہیں چنانچہ دوسری نسل آتے آتے اردو بولنے والے بھی پاجامے کی تنگنائیاں چھوڑ چھاڑ شلواروں کی وسعتوں میں سماتے چلے گئے-
اس کے بعد دو دہائیوں کا وقفہ آیا کہ جب شہری سندھ میں ایسی سیاست نے سر اٹھایا کہ پاجامے نے یکایک عروج پایا ۔۔۔ کچھ عرصہ تو یہ عالم رہا کہ پاجامہ پہنے نوجوان کے پاس سے سے گزرتی پولیس موبائل سے بھی سلامیاں گونجتی سنائی دیتی تھیں ۔۔۔ ان دنوں بہت سے نوجوانوں کی طاقت کا مدار محض ایک دو پاجامے کے ترکے پہ تھا جنہیں پہن کے وہ بڑے بڑے فیصلے کرنے لگے تھے ۔۔۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ یکایک پیسے کا ابال آیا اور اور پاجامے کو زوال آیا کیونکہ اچانک ہی راہ سیاست میں ولایت’ کا مقام آیا اور ہر طرف سوٹ بوٹ نے کمال پایا ۔۔۔ یوں پاجامے کی بہاریں کچھ ہی عرصہ چل سکیں اور پھر انہیں سیاسی وباؤں اور قانونی دفعاؤں نے یوں آن دبوچا کے دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ تفتیشی سوالات اور سرزنشی حوالات تک جاپہنچا ۔۔۔۔ لیکن پھر مضبوط ہاضمے اور کمزور حافظے کی بدولت سب کچھ محو ہوتا چلاگیا اور ٹی وی چینلوں کے ڈراموں کے بل پہ پاجامہ فیشن کی راہ پاگیا اور اسکا رتبہ ریمپ پہ واک تک جاپہنچا اور اکثر شادی بیاہ اور تقریبات میں فیشن کے ہاتھوں پگلے سے ہوئے نوجوان اسی پاجامے کے بل پہ بگلے سے بنے یہاں وہاں آنیاں جانیاں کرتے دیکھے جانے لگے ۔۔۔ ویسے بھی یہ پاجامہ کچھ ایسا عجب لباس ہے کہ فقط اسی کے بل پہ بہتیرے فارغ لوگ بیروزگاری میں بھی نوابی کا سا لطف پاتے ہیں۔۔
سچی بات ہے کہ اس پاجامہ پوش پپریڈ سے ہمارے دل میں بھی ارمانوں نے انگڑائی سی لی اور ایک طویل عرصے بعد ہم نے بھی ایک پاجامہ سلوا ہی لیا ۔۔۔ اس سے قبل 90 کی دہائی میں ہم نے گھروالوں کی دہائیوں پہ پاجامہ پہننا اس وقت ترک کردیا تھا کہ جب کراچی میں پاجامہ پہننے والوں کی بپتاؤں اور ُُدہائیوں کا موڑ آچکا تھا اور نہ صرف کراچی بلکہ تمام سندھ میں کسی کا پاجامہ پہنے ہونا سرکاری طور پہ پولیس چھاپے کی معقول ترین وجہ کا مقام حاصل کرچکا تھا- پھر بھی اس پھر اپنانے کے لئے کچھ دن تو ہمیں ہمت جٹانے میں ہی لگ گئے۔۔۔ مگر ہم جیسے براستہ فلم تاریخ کے اسیر بننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کرتے کے ساتھ پاجامہ پہننا کیسے دفعتاً تاریخی داستانوں کے ہیرو کا سا احساس دینے لگتا ہےاور اسے پہنتے ہی تلوار تھام کے میدان میں کود پڑنے کا سا جذبہ لہریں مارنے لگتا ہے ۔۔۔ مگر پھر ہوا یہ کہ کرتا پاجامہ دھارن کرکے بازار میں موٹر سائیکل سے اتر کے دوچار قدم ہی چلے تو دفتاً چال کی اتراہٹ جھٹ پٹ کھسیاہٹ میں بدل گئی کیونکہ اندرونی اطلاعاتی نظام سے یکایک یہ احساس ہوا کہ پاجامے کا مقام تقسیم خط تذلیل کے آس پاس ہی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ مطلوبہ مقام پہ رومالی ندارد ہے اور آسن کی ردیف چھوٹی بحر میں ہے جس سے محسوس ہوا کہ اگر اس کی وجہ درزی کی جدت پسندی یا بھول چوک نہیں ہے تو پھر اس نے دانستہ چال کا قافیہ اور شخصیت کا قائدہ بگاڑنے کے کسی کمینے امکان کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔۔۔ بدگمانی ہر بار بری نہیں ہوتی ، کبھی کبھی اس سے عملی حکمت بھی جنم لے سکتی ہے اس طرز احساس کے تحت وہیں سے ترنت واپسی کی ٹھانی اور موٹر سائیکل کے پاس پہنچ کر جونہی بیٹھنے کے لئے دائیں ٹانگ اٹھائی ، ایک مہیب سی چرچراہٹ ہوئی اور پائینچے کے ابتدائی مقام کو چھونے والے اسی خط تذلیل سے ڈھیروں ٹھنڈی سی ہوا در آئی اور پھر یکایک جیسے ہر طرف سے بہت سے چڑیئیں اور کؤے بول پڑے۔۔
اس صدمے کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنا فضول تھا کیونکہ لگ رہا تھا کہ ساری کائنات میں یہ چرچراہٹ گونجی ہے اور اب یہ منظر دیکھنے سے صدمہ کی شدت مزید بڑھ جائے گی-۔۔۔ سو آنکھیں جھکاکے ہم نے بڑی احتیاط سے اپنی ایک ٹانگ کو پکڑ کے موٹرسائیکل کے آر پار کیا اور جھٹ پٹ یہ جا وہ جا ہوئے ۔۔۔ رستہ لمبا تھا لیکن ہم تمام وقت سکڑ سمٹ کے سڑک پہ دیکھنے کے بجائے اگلے پہیئے پہ نظریں جمائے جھنپے سےبیٹھے رہے ۔۔ بگولے کی مانند گھر پہنچے تو دروازے پہ ایک دیرینہ ملاقاتی منتظر پایا جس نے نجانے کس شگون کو پاکے اس وقت ہمیں بڑی اپنائیت سے یہ تاکید کی کہ ایک تو یہ کہ ہم موٹر سائیکل اتنی تیز نہ چلایا کریں دوسرے یہ کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے خود اعتمادی سے بیٹھیں ورنہ دیکھنے والے کو لگے گا کہ جیسے کسی کی موٹر سائیکل چراکے بھاگے ہیں ۔۔۔ اب ہم اسے اپنے پاجامے کی اتنی لمبی کتھا کیا سناتے ۔۔۔ بس دوبارہ سے اترنے کی کوشش میں فٹافٹ ٹانگ اٹھائی اور باقی کتھا دوسری چرچراہٹ نے سنادی۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔