صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر لیفٹیننٹ (ر) سعد بن اسد نے جمعرات کو بتایا کہ کوئٹہ پریس کلب میں تنظیموں یا سیاسی جماعتوں کو نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کے بغیر تقریبات کی میزبانی سے روکنے والا نوٹیفکیشن کوئی انہونی ہدایت نہیں اور پریس کلب میں تقریبات کے لیے اجازت لینا لازمی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ آزادی صحافت کے خلاف نہیں۔ ’پریس کلب میں پریس کانفرنس کے لیے کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ کوئی بھی فرد پانج منٹ کے نوٹس پر پریس کانفرنس کر سکتا ہے۔ مگر تین، تین گھنٹے تک چلنے والی کانفرنس یا سیمینار کے لیے انتظامیہ سے اجازت لینا لازمی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اجازت نامے کے علاوہ کانفرنس یا سیمینار کے میزبانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ تقریب میں ایسے فرد یا سپیکر کو شریک نہ کریں جس پر پابندی ہو یا وہ فرد یا سپیکر فورتھ شیڈول میں آتا ہو۔تقریب میں ریاست مخالف بات نہ کی جا سکے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ تقریب کی سیکورٹی کا بھی انتظام کر سکے۔انہوں نے واضع کیا کہ ان ہدایات پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف دفعہ 188 کے تحت مقدمہ دائر کیا جائے گا۔کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے ’امن و امان کی صورت حال‘ کے پیش نظر کوئٹہ پریس کلب میں تنظیموں یا سیاسی جماعتوں کو این او سی کے بغیر تقریبات کی میزبانی سے روک دیا ہے۔منگل کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے کوئٹہ پریس کلب کے صدر کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق امن و امان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر کسی بھی تنظیم، سیاسی جماعت کو کوئٹہ پریس کلب میں پیشگی اجازت نامے کے کانفرنس یا سیمینار منعقد کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔حالیہ برس مئی میں مقامی انتظامیہ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین کو ایک سیمینار منعقد کرنے سے روکنے کے لیے پریس کلب کے دروازے بند کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ خضدار پریس کلب بھی بڑے عرصے تک بند رہا تھا۔لیفٹیننٹ (ر) سعد بن اسد کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل کوئٹہ پریس کلب کے صدر اور دیگر عہدے داران کے ساتھ ضلعی انتظامیہ نے ملاقات کر کے انہیں اعتماد میں لیا تھا۔اس نوٹیفکیشن پر اتنا شور مچایا گیا ہے جیسے پہلی بار ہو رہا ہے۔ کراچی، اسلام آباد سمیت کسی بھی ہوٹل یا کسی جگہ یا کوئٹہ میں بھی کسی ہوٹل میں تقریب منعقد کرنے سے قبل انتظامیہ سے اجازت لی جاتی ہے۔ کوئٹہ پریس کلب میں اکثر کانفرنس یا سیمینار ہوتے رہتے ہیں، جس کی اجازت لینے کی ہدایت کی ہے۔‘