تحریر: ذوالفقار احمد چیمہ
جو شخص یہ کہتا ہے کہ ایک باحجاب اور ایک نیم عریاں عورت کو دیکھ کر مردوں کا ردّ ِ عمل ایک جیسا ہوتا ہے یا یہ کہ عورت کے بدن پر کَسے ہوئے یا اس کے اعضاء کو نمایاں کرنے والے لباس سے مردوں کے جنسی جذبات پر کوئی اثر نہیں پڑتااور اس کا جنسی جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے ، وہ صریحاً جھوٹ بولتا ہے، کسی خاص ایجنڈے کے تحت حقائق چھپانے کی کوشش کرتا ہے، یا بدترین احساسِ کمتری اور مغربی کلچر کی غلامی کا شکار ہے۔
چند روز قبل ایک نجی چینل پر ایک اینکر کی کیفیت حیرانی کا باعث بنی۔ ویسے تو وہ پی ٹی آئی کا جیالا بنا ہوتا ہے لیکن عورتوں کے مختصر لباس کے بارے میں وزیرِاعظم کے بیان پر وہ برافروختہ تھا ۔ کسی نے لباس کے معاملے میں قرآنی حکم کا حوالہ دیا تو اس نے دو تین سوال جڑدیے کہ:پاکستان کوئی اسلامی ملک نہیں ہے، لہٰذایہاں مذہبی حوالے کیوں دیے جارہے ہیں؟ وزیرِاعظم کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ لباس پر بات کریں؟ وزیرِاعظم کوئی ریفارمر نہیں ہوتا کہ ایسی باتیں کرے۔
ایک دو اور چینلز پر بھی ایسا ہی دیکھا گیا۔ اگر کسی خاتون نے اﷲ کے حکم کا ذکر کیا تو اسے یہ کہہ کر مدافعت پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’’مذہب کارڈ مت استعمال کریں‘‘۔ میں وزیرِاعظم کے بیان کی بات نہیں کروںگا، اس لیے کہ میں نہیں جانتا کہ انھوں نے کس سوچ کے تحت یہ بات کی ہے ۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے تنقید کے جواب میں چُپ سادھ لی ہے اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اب بھی کسی اپوزیشن لیڈر کی طرح باتیں کرتے ہیں، عمل نہیںکرتے۔ نام و ہ (غالباً عوام کی اکثریت کو خوش کرنے کے لیے) ریاستِ مدینہ کا لیتے ہیں مگر وزراء (ایک آدھ کے سوا) کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
خواتین کے ڈیسنٹ اور با حیا لباس کی ترویج کے لیے انھوں نے عملاً کچھ بھی نہیں کیا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے حیاء کے قلعے کو مسمار کیا جارہا ہے، ان کے سر سے دوپٹّہ چھین لیا گیا ہے۔ مگر وہ تین سال سے حکمران ہوتے ہوئے صرف تماشا دیکھ رہے ہیں۔ مگرمیں اس موضوع پر اس لیے بات کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ تین دھائیوں سے زیادہ Law Enforcement میں گزارنے اور جنسی تشدّد کے مرتکب سیکڑوں مجرموں کو انٹیروگیٹ کرنے کی وجہ سے ان کی سوچ سے واقف ہوں، اس لیے میں اینکرز اور دوسرے ماہرینِ وغیرہ (جن کے پاس صرف کتابی علم ہے) سے زیادہ باخبر ہوں۔
پہلے اینکر کے سوالوں کی جانب آتے ہی۔ اُس کے سوال ہی اس کی ذہنی سطح کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی جانتا ہے کہ کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے کیونکہ اس کے آئین میں درج ہے کہ یہاں قرآن اور سنّت یعنی اﷲ اور رسول اﷲؐ کے احکامات کے منافی نہ کوئی قانون بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلّق ہے تو معاشرے کی اصلاح قوم کے لیڈر نہیں کریں گے تو کیا فلمی ایکٹرز اور ڈانسرز کریں گے؟ ۔ معاشرے کی اصلاح حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ اسلام کے اوّلین دور میں حکمران زبانی اور ذاتی طرزِ عمل سے قوم کی اصلاح کرتے رہے ہیں ۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد بیشمار لوگوں نے قائداعظم کی دیانتداری، اصول پسندی، ڈسپلن اور کفایت شعاری دیکھ کر اسے اپنایا۔ کئی باعمل علماء نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تبدیل کردیں۔ معاشرے کی اصلاح میں اینکرز سمیت ہر شخص اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے یہ فرض ادا کرنا چاہیے۔ ایک پروگرام میں مسلم لیگ ن کے محمد زبیر فرمارہے تھے کہ اب تو سعودی ولی عہد پرنس محمد نے بھی وہاں سے Moral Police ختم کردی ہے تو یہاں لباس کوmoralityیا مذہبی اقدار کی کسوٹی پر کیوں پرکھا جارہا ہے۔
ارے بھائی پاکستان کے مسلمانوں کے لیے نہ سعودی عرب رول ماڈل ہے اور نہ ولی عہد کا فرمان سرچشمۂ ہدایت۔ ہمارے لیے ذریعہ ہدایت خالقِ کائنات کا فرمان اور سرچشمۂ ہدایت صرف نبی کریمﷺ کی سُنّت ہے۔ مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ محمد زبیر کو صرف اقتصادی امور پر بات کرنے کے لیے بھیجا جائے۔
پاکستان کے تمام باشعور خواتین و حضرات جانتے ہیں کہ عورت کے ستر اور اعضاء کو نمایاں کرنے والا لباس ہماری سوسائیٹی میںنامناسب اور قابلِ اعتراض سمجھا جاتا ہے۔ یورپ کے معزز گھرانوں کی خواتین بھی ایسے لباس کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہیں، یورپ ہی کے کئی ممتاز اور معتبر اداروں کے سروے اور رپورٹیں چھپ چکی ہیں جن میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ عورتوں کاRevealing Dress (اعضاء کی نمائش کرنے والا لباس) مردوں کے جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتا ہے۔
جب یہ جذبات بے قابو ہوجاتے ہیں تو ریپ جیسے جرائم پر منتج ہوسکتے ہیں۔ کیا اینکرز نہیں جانتا کہ فلموں اور ڈراموں میں ’’سیکسی ڈریس‘‘ کی اصطلاح عام ہے جس کا مطلب ہی ایکٹرسوں کا وہ لباس ہے جس سے فلم بینوں کے جنسی جذبات ابھارے جاسکیں۔ لاہور میں ایس پی سٹی کے طور پر مجھے چند کیسوں میں فلمی ایکٹرسوں سے بھی پوچھ گچھ کی ذمّہ داری سونپی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ خود تو بے حیائی والا لباس پسند نہیں کرتیں مگر کچھ ڈائریکٹر وں کی ہدایت ہوتی ہے کہ ’’ایسا سیکسی لباس پہنو جس سے دیکھنے والوں کے جذبات کو آگ لگ جائے۔‘‘ ایسی فلمیں دیکھ کر نکلنے والے تماش بین جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ نامناسب اور Vulgarلباس کے حامی میڈیا پر انتہائی بودے دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چارسالہ بچّی نے کونسا نامناسب لباس پہنا ہوتا ہے اور وہ درندگی کا نشانہ کیوں بنتی ہے؟ ایسے واقعات میں ملوّث سیکڑوں مجرموں سے پوچھ گچھ کی گئی،ان میں سے نوّے فیصد سے زیادہ مجرم جنسی ناآسودگی کا شکار ہوتے ہیں، بعض اوقات جنسی بھوک اُن پر اس طرح سوار ہوتی ہے کہ اسے مٹانے کے لیے وہ عقل و شعور کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ بھی کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
اسّی فیصد نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ بلیو فلمیں دیکھتے رہے جس سے ان کے جنسی جذبات اس قدر برانگیختہ ہوئے کہ اُن پر شیطان سوار ہوگیا اور وہ کسی آسان ٹارگٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان حالات میںوہ اپنے کسی جاننے والے کے بچّے یا بچّی کو ورغلاتے ہیں، کیونکہ وہ بیچارے مزاحمت نہیں کر پاتے۔ جب وہ کسی معصوم بچّے یا بچّی کے ساتھ ایسی درندگی کا مظاہرہ کرچکتے ہیں تو پھر انھیں خوف لاحق ہوتا ہے کہ یہ بچی تو مجھے جانتی ہے یا یہ بچہ اب اپنے والدین کو بتادے گا اور وہ مجھے ماردیں گے، لہٰذا وہ اپنے جرم کے واحد عینی گواہ ( Victim) کو ہی قتل کردیتے ہیں تاکہ ان کے جرم کے بارے میں کوئی کچھ نہ بتاسکے۔ سوال یہ ہے کہ مجرم اس حالت تک کب پہنچتا ہے کہ جب اس کے جذبات بالکل بے قابو ہوجا ئیں۔ اَسّی فیصد کیسوں میں یہ تب ہوتا ہے جب مجرم بلیوفلمیں دیکھتا ہے۔
جنسی فلموں کی اداکارائیں تو سامنے موجود نہیں ہوتیںمگر وہ تماش بینوں کے جذبات میں ایسی آگ لگا جاتی ہیں کہ اس آگ میں معاشرے کا امن اور سکون بَھسم ہوجاتا ہے۔ نامناسب لباس کے حامیوں نے نہ جانے یہ کہاں سے سن رکھا ہے کہ ریپ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ مرد عورت کو اپنی بڑائی یا طاقت دکھانا چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عورت کمزور مخلوق ہے اور مرد جس طرح چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔
یہ بھی ایک نہایت کمزور دلیل ہے جس کا نوّے فیصد کیسوں سے کوئی تعلّق نہیں ہوتا۔ ایک معصوم بچی کو شیطانیت کا نشانہ بناکر مجرم چار سالہ بچی کے سامنے اپنی کونسی بڑائی اور بالادستی ثابت کرنا چاہتا ہے؟ ایسا صرف چند کیسوں میں ہوتا ہے جہاں کوئی امیر یا مقتدر شخص کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہے مگر لڑکی انکار کردے تو وہ شیطان صفت مرد اپنی ناکامی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اوربدلہ لینے کے لیے لڑکی کو اغوا کرکے درندگی کا نشانہ بنادیتے ہیں یا اس کے منہ پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ مسخ کردیتے ہیں۔ ایسے شیطانوں کو یقیناً سرِعام سزائے موت ملنی چاہیے، راقم خود ہر فورم پر ایسے مجرموں کے لیے سزائے موت کی بات کرتا رہا ہے۔ مگر عورتوں کے نامناسب لباس کی حامی خواتین مجرموں کی حمایت میں نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان درندوں کو سزائے موت دینے کی مخالفت کرتی ہیں ۔
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یورپ میں تو عورتوں نے بڑا مختصر لباس پہنا ہوتا ہے وہاں تو مردوں کے جذبات برانگیختہ نہیں ہوتے۔ ارے بھائی حقائق معلوم کریں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ ایک تو یہ کہ وہاں جذبات دل میں رکھنے یا چھپانے کے بجائے لڑکیوں کے بوائے فرینڈزانھیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔
وہاں شور اس لیے نہیں ہوتا کہ والدین اس تلخ حقیقت سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ ویسے یورپ، سکینڈے نیویا اور امریکا میں ریپ اور Sexual Assaultکے واقعات پاکستانی اور اسلامی ملکوںسے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ مختصر اور قابلِ اعتراض لباس کے حامی اچھی طرح جانتے ہیں کہ عورتوں کے Vulgar لباس پر اعتراض کرنا مجرموں کی حمایت ہرگز نہیں ہے ۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بدکاری کی دعوت دینے والا لباس بھی جنسی تشدد کے واقعات کا سبب بنتا ہے۔ توپھر سوال یہ ہے کہ وہ کس کے کہنے پر اس قدر تلملا رہے ہیں ؟ (جاری ہے)۔۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔