معروف مصنف،ڈرامہ رائٹر اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے ڈرامے’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے لکھاری خلیل الرحمن قمر نے کہا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اتنا بڑا لکھاری بن جاؤں گا،میرے لکھنے کےسفر کے دوران ، میں آج تک یہ طے نہیں کر پایا کہ میں سچ مچ کوئی بڑا لکھاری ہوں ،میں عورت کو ماننے والا ہوں تو پھرعورت کے خلاف بیان کیسے دے سکتا ہوں؟عورت فطرتا وفادار ہوتی ہے اور جو وفادار نہیں ہوتی وہ فطرتا عورت نہیں ہوتی، جو مرد دغا کرتا ہے وہ بھی ’’دوٹکے‘‘ کا ہے’’میرے پاس تم ہو ‘‘ میں’’شہوار‘‘ کا کریکٹر محبت کرنے کےلئےنہیں بلکہ نفرت کے لئے لکھا ہے ،اگر اُس کے باوجود کوئی شہوار سے ’’محبت‘‘ کرنے لگا ہے تو اسے اپنے ’’کریکٹر‘‘ کو دیکھنا ہو گا،’’میرے پاس تم ہو ‘‘میں تمام اداکاروں نے اپنے کردار کا حق ادا کیا ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ ہمایوں سعید نے میرا دل جیت لیا ہے،ہمارے ہاں کرپشن کا پیسہ اتنا پھیل گیا کہ ہمارے ہاں رشتوں کی ،ادب کی ، لٹریچر کی اور اخلاقیات کی قدر نہیں رہی،حلال کی بھوک کو انجوائے کیجئے،کرپشن کی روٹی کھانے کی بجائے۔’’نیو نیوز‘‘کےپروگرام’’لائیو وِد نصر اللہ ملک ‘‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اتنا بڑا لکھاری بن جاؤں گا،میرے لکھنے کےسفر میں،میں آج تک یہ طے نہیں کر پایا کہ میں سچ مچ کوئی بڑا لکھاری ہوں ،لکھنا میری ڈیوٹی ہے جو میں سرانجام دے رہا ہوں ،مجھے پروردگار کی طرف سے پیغام اور رہنمائی آتی ہے،پروردگار نے مجھے یہاں تک لانے میں میری رہنمائی کی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم کتابی طور پر مانتے ہیں کہ معاشروں کی شکست و ریخت اور اسے بنانے سنوارنے میں دانشوروں ،صحافیوں اور لکھاریوں کا بڑا کردار ہے تاہم خدا گواہ ہے کہ میں نے ہمیشہ اِس یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ معاشرے کو بنانے اور سنوارنے میں سب سے بڑا کردار عورت کا ہے ،ہم مرد لوگ تو وہ مزدور ہیں جو اُن کو میٹریل سپلائی کرتے ہیں،ہم مرد لوگ تو اکثر اوقات اس کی ٹوٹ پھوٹ کا حصہ بنتے ہیں اور عورتوں کی مہربانیوں سے کسی طور پر معاشرے کو سنوار لیتے ہیں ، جب میں عورت کی بات کرتا ہوں تو اُس عورت کی بات کر تا ہوں جس کو میں عورت کہتا ہوں ،جس کے پاس حیا ہے اور وفا ہے۔خلیل الرحمن قمر کا کہنا تھا کہ میں عورت کو ماننے والا ہوں تو پھرعورت کے خلاف بیان کیسے دے سکتا ہوں؟عورت فطرتا وفادار ہوتی ہے اور جو وفادار نہیں ہوتی وہ فطرتا عورت نہیں ہوتی، جو مرد دغا کرتا ہے وہ بھی ’’دوٹکے‘‘ کا ہے،گناہ کرنا سب کا حق ہے لیکن پھر گناہ کی سزا بگھتنے کے لئے تیار ہوجائیں،بعض اوقات شعوری حرکتوں پر لاشعوری حرکتیں حاوی آ جاتی ہیں،بس لاشعور کو بچانا ہوتا ہے ،شعور میں تو ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم کیا غلطی کر رہے ہیں اور اگر جان بوجھ کر غلطی کر رہے ہیں تو پھر آپ کو اجازت ہے اور آپ کو حق حاصل ہے کیجئے غلطی اور پھر اُس کی سزا بگھتئے۔
خلیل الرحمن قمر کا کہناتھاکہ میرا اللہ پر بڑا پختہ ایمان ہے، مجھے اپنے کیرئیر میں کبھی کوئی مشکل نہیں آئی،جو حل ہو جائے وہ مشکل نہیں ہوتی،میں نے ’’شہوار‘‘ کا کریکٹر محبت کرنے کے لئے نہیں بلکہ نفرت کے لئے لکھا ہے،اگر اُس کے باوجود کوئی شہوار سے ’’محبت‘‘ کرنے لگا ہے تو اسے اپنے ’’کریکٹر‘‘ کو دیکھنا ہو گا، ’’ میرے پاس تم ہو ‘‘میں تمام اداکاروں نے اپنے کردار کا حق ادا کیا ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ ہمایوں سعید نے میرا دل جیت لیا ہے ۔اُنہوں نے کہا کہ میں کسی دوسرے لکھنے والے پر کبھی کوئی قدغن نہیں لگاتا ،قوموں میں جب ’ادب‘مرنے لگتا ہے تو پھر لوگوں کے لئے ’’ادب ‘‘بھی مرنے لگتا ہے،ہمارے ہاں کرپشن کا پیسہ اتنا پھیل گیا کہ ہمارے ہاں رشتوں کی ،ادب کی ، لٹریچر کی اوراخلاقیات کی قدر نہیں رہی ،معاشروں پر ایسے برے وقت بھی آتے ہیں،ہماری رعایا کی طرح تربیت کی گئی ہے،جس دن ہم رعایا سے ملک کے حصے دار بن جائیں گے،اُس دن ہم ٹھیک ہو جائیں گے،ہمیں پتا ہوگاکہ فلاں آدمی کے پاس جتنا رائٹ ہے،اُتنا رائٹ میرے پاس بھی ہے،ابھی تو ہم ’رائٹ وے‘ دیتے ہیں،پسی ہوئی قوم ہے ہماری،ہم نے ہمیشہ کرپشن سے بنے ہوئے آقاؤں کو پالا ہے،اُس سے نقصان تو ہوتا ہے،جس دن ہمیں تمیز آ جائے گی کہ حلال کا ایک پیسہ کرپشن کے ایک ارب روپے سے زیادہ قیمتی ہے ،اُس دن ہم ٹھیک ہو جائیں گےاور وہی وقت ہماری نشاط ثانیہ کا ہو گا ،’’حلال کی بھوک کو انجوائے کیجئے،کرپشن کی روٹی کھانے کی بجائے۔