تحریر: سید عارف مصطفیٰ
تاریخی طور پہ ہر غذائی قدردان کی مانند گول گپے بھی ہمیشہ سے ہماری صلاحیت ہضم کو للکارتے رہے ہیں لیکن ہم کھانے پینے کے معاملے میں رکھ رکھاؤ کے بجائے رکھ کے کھاؤ کے قائل ہیں یعنی دبا کے کھاؤ ،،، لیکن گول گپے اس پہ اور بھی پھول جاتے ہیں اور ہمارے منہ کو بڑھ بڑھ کے آتے ہیں ۔۔۔ نہیں معلوم گول گپوں میں اتنی لذت کہاں سے آتی ہے کے ہرکس و ناکس میں کھلم کھلا سڑک کنارے اسے کھانے کی ہمت پائی جاتی ہے ۔۔ اس میں ذرا مبالغہ نہیں کہ اس کے سامنے احتیاط کے سب بند ٹوٹ جاتے ہیں ذرا موقع ملے تو خود اپنے ہاتھوں اپنے چھکے چھوٹ جاتے ہیں ۔۔۔ البتہ ہم اسے اک نرالی وارفتگی سے کھاتے ہیں یعنی آدھا منہ میں بھرتے ہیں باقی اپنے کپڑوں پہ دھرتے ہیں ، شوق کا عالم یہ کہ پہلے سے بڑھ چڑھ کے کھانے ہیں اور بار بار خود کو ہراتے ہیں اور اسی عالم سرور و رفتار میں خاصی مقدار اپنے کپڑوں پہ گراتے ہیں ۔۔۔ اس لمحے ہمارے منہ کا باہر بڑھایا گیا دہانہ یوں مینڈک سے ملنے لگتا ہے کہ ہم کھاتے سمے کچھ بھی بولیں تو ٹراتے بتائے جاتے ہیں ۔۔۔
ہماری پرانی یادوں کا حاصل بھی یا تو دھول دھپا ہے یا پھر گول گپا ہے مگر جب بھی یاد آئے پہلے سے بڑھ کے مزہ دیتا ہے خاص طور پہ سےاک پرانی و نامقبول فلم مہتاب کے اک گانے نے تو اسے لازوال کردیا ہے جس کا محور ہی گول گپا ہے ۔۔ یہ الگ بات کہ گلی میں اس کا ٹھیلے والا جب بھی آتا ہے ، اس گانے کو انتھک اور مسلسل یوں بجاتا ہے گویا ہمارے اعصاب کو تھکاتا ہے ہماری سماعت کو بجاتا ہے ۔۔۔ بلاشبہ اچھے پڑوسی پن کے اصولوں پہ ہیچ سہی مگر گول گپا ان چند اشیاء میں سے ہے کہ جن کے معاملے میں پاک و ہند کے باسی اک پیج پہ ہیں ۔۔۔ یہاں کے کئی علاقوں میں اسکے کئی الگ الگ نام بھی ہیں جن میں پانی پوری بھی بہت مقبول ہے تاہم یہ جو پاکستانی نام ہے گول گپا ، اسکی توبات ہی کچھ اور ہے کیونکہ یہ ایسا پھولا پھالا سا بصری تاثر لئے ہوئے ہے کہ نام لیتے ہی آنکھوں میں گویا ایک تصویر سی بن جاتی ہے جبکہ پانی پوری کے نام میں لفظ پوری سے اس کی چپٹی سی شکل ابھرتی ہے جو کہ سراسر پامال شدہ یا آدھی کھائی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔۔۔
اس کے غذائی گھمسان میں ہم ذرا تمیز سے کام لیں تو گول گپا مزہ نہیں دیتا ۔۔لیکن تمیز سے کام نہ لیں تو پہنی قمیض کام کی نہیں رہ پاتی ۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گول گپے جوں جوں پیٹ کے کنوئیں میں آگے پیچھے چھپاک چھپاک گرتے جاتے ہیں ہم ساتھ ساتھ سونٹھ اور مرچ کے پانی کے کٹورے پیہم لنڈھاتے ہیں گاہے چٹخارے سے ہونکتے ہیں ہانپتے ہیں گاہے عروجِ چٹخارہ پہ بہتی ناک سڑسڑاتے ہیں اوردھڑا دھڑ چھوٹے چھوٹے بلبلے بناتے ہیں نتیجتاً بیگم کی کھلی نوج سنتے ہیں جس میں رال بند کے حقیقی مستحق قرار پاتے ہیں ۔۔
لیکن کبھی کبھار تو ندیدے پن کا یہ وفور یہ نوبت بھی لاتا ہے کہ فنا کے گھاٹ اتارے گئے ڈھیروں کرمراتے گول گپوں کے باعث ، بلحاظ حجم ہمارا اپنا بدنی مٹکا، گول گپے کے مٹکے سے بھی بڑھ جاتا ہے اور پھر چلتے پھرتے سمے ہمارے پیٹ کی پاتال سے سے ڈگ ڈگ کی صداؤں کا جناتی شور ہمیں بھی کھلتا ہے ، لیکن صاحبو اس قسم کی غذائی فتوحات میں ایسا تو چلتا ہے ،، کیونکہ محبت اور جنگ میں جب سب کچھ جائز ہے تو پھر یہ تو پوتر غذائی جنگ ٹہری ۔۔ اور پھر ۔۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں اور یہی تو اصل بات ہے اور بات بھی گہری۔۔(سید عارف مصطفی)۔